Najaiz Qabze Ki Masajid Aur Ibadat
ناجائز قبضے کی مساجد اور عبادت

ناجائز زمینوں پر مساجد کے تعمیر اور شریعت کے بنیادی اصول پر ایک نظر ڈالتے ہیں کہ اس بارے میں اسلام کیا کہتا ہے کہ کیا ناجائز زمین پر عبادت قبول ہوتی ہے آئیے، اس موضوع کو شریعت کے مزید اصولوں کی روشنی میں دیکھتے ہیں تاکہ یہ واضح ہو کہ اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے اور ہمارے معاشرے کی یہ غلطی کس قدر سنگین ہے۔
شریعت کا بنیادی اصول ہے کہ عبادت کی قبولیت کے لیے اس کا حلال ہونا ضروری ہے۔ قرآن مجید میں سورہ المائدہ (آیت 88) میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اور جو کچھ اللہ نے تمہیں حلال اور پاکیزہ دیا ہے اسے کھاؤ اور اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھتے ہو۔۔ یہ اصول صرف کھانے پینے تک محدود نہیں، بلکہ ہر عمل بھی ضروری ہے۔ اگر مسجد کی تعمیر کے لیے زمین ناجائز طریقے سے حاصل کی گئی، چاہے وہ سرکاری زمین ہو، فٹ پاتھ ہو، یا کسی کی ذاتی ملکیت۔ تو اس پر بننے والی عمارت شرعی طور پر پاکیزہ نہیں۔ ایسی جگہ پر پڑھی جانے والی نماز کی قبولیت مشکوک ہے کیونکہ اس کی بنیاد ہی حرام پر رکھی گئی۔ حدیث میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس نے ظلم سے زمین کا ایک بالشت بھی ہڑپ کیا، قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا۔ (صحیح مسلم) یہ حدیث ناجائز قبضے کی سنگینی کو واضح کرتی ہے۔
شریعت کا ایک اہم اصول عدل و انصاف ہے۔ قرآن میں سورہ النساء (آیت 58) میں ارشاد ہے بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حقداروں کو لوٹاؤ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو انصاف سے کرو۔ ناجائز زمین پر مسجد بنانا نہ صرف زمین کے اصل مالک کے ساتھ ظلم ہے، بلکہ معاشرے کے اجتماعی حق پر بھی ڈاکہ ہے۔ سرکاری زمین یا گرین بیلٹ عوام کی امانت ہے۔ اس پر قبضہ کرکے مسجد بنانا انصاف کے تقاضوں کے خلاف ہے۔ اگر کوئی شخص یا گروہ یہ سمجھتا ہے کہ مسجد کے نام پر ظلم جائز ہو جاتا ہے، تو وہ شریعت کی روح سے ناواقف ہے۔
شریعت میں نیت کی پاکیزگی کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔ اگر کوئی مسجد اللہ کی رضا کے لیے نہیں، بلکہ زمین پر قبضے، سیاسی اثر و رسوخ، یا مالی فائدے کے لیے بنائی جاتی ہے، تو اس کی نیت ہی فاسد ہے۔ ایسی مسجد نہ تو اللہ کے لیے ہوتی ہے، نہ اس کا تقدس قائم رہتا ہے اور نہ نماز ہوتی ہے بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کئی مساجد اور مدرسے راتوں رات اسی فاسد نیت کے تحت وجود میں آتے ہیں، جہاں دین کا نام استعمال کرکے ذاتی مفادات پورے کیے جاتے ہیں۔
شریعت میں مسجد کی تعمیر کے لیے واضح شرائط ہیں۔ امام ابوحنیفہؒ اور دیگر فقہاء کے مطابق، مسجد کی زمین جائز ذرائع سے حاصل کی گئی ہو، اس کا مقصد خالصتاً اللہ کی عبادت ہو اور اس کی تعمیر میں کوئی ظلم یا ناجائز عمل شامل نہ ہو۔ اگر زمین چوری کی ہو یا قبضے کی ہو، تو اس پر بننے والی عمارت شرعی طور پر مسجد کا درجہ نہیں رکھتی۔ علامہ ابن عابدین شامیؒ اپنی کتاب "رد المختار" میں لکھتے ہیں کہ ایسی جگہ پر عبادت کی شرعی حیثیت مشکوک ہوتی ہے، کیونکہ اس کی بنیاد ظلم پر رکھی گئی۔
شریعت ہمیں اجتماعی اصلاح کا درس دیتی ہے۔ سورہ آل عمران (آیت 104) میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: "تم میں سے ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو خیر کی طرف بلائے اور نیک کام کا حکم دے اور برائی سے روکے"۔ ناجائز قبضے پر مساجد کی تعمیر ایک اجتماعی برائی ہے اور اسے روکنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں جذباتی نعروں اور نام نہاد مذہبی رہنماؤں کے ڈر سے لوگ خاموش رہتے ہیں۔ یہ خاموشی خود ایک جرم ہے۔ سچا عالم وہ ہے جو اس ظلم کے خلاف آواز اٹھائے، نہ کہ اسے مذہب کا لبادہ اوڑھا کر جائز قرار دے۔
کراچی ہو یا کوئی اور شہر، یہ منظر عام ہے کہ خالی پلاٹ، فٹ پاتھ، یا سرکاری زمین پر راتوں رات قبضہ کرکے مسجد یا مدرسہ بنا دیا جاتا ہے۔ یہ سب کچھ ایک منظم مافیا کے تحت ہوتا ہے، جو دین کے نام پر اپنے مفادات پورے کرتا ہے۔ یہ لوگ نہ صرف شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہیں، بلکہ معاشرے میں بداعتمادی اور انتشار پھیلاتے ہیں ایسے لوگ اللہ کے گھر کو اپنی جاگیر بناتے ہیں اور دین کو اپنی دکان۔
ہمیں اس برائی کے خلاف آواز اٹھانی ہوگی۔ علماء کو چاہیے کہ وہ لوگوں کو شریعت کے ان اصولوں سے آگاہ کریں۔ عوام کو چاہیے کہ وہ جذباتی نعروں میں نہ بہہ جائیں، بلکہ دین کی سمجھ پیدا کریں اور سب سے بڑھ کر، ہمیں اپنے نظام کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ زمینوں پر ناجائز قبضے روکے جا سکیں۔ مسجد اللہ کا گھر ہے، لیکن اس کی پاکیزگی اس کی بنیادیں پاک ہونے سے مشروط ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری عبادتیں قبول ہوں، تو ہمیں اپنے اعمال کو شریعت کے اصولوں کے مطابق درست کرنا ہوگا۔
آخر میں، بس یہی کہوں گا کہ دین کو سیاست اور قبضے کی بھینٹ نہ چڑھائیں۔ اللہ کا گھر اس کے احکامات کے مطابق بنائیں، نہ کہ اپنی ہوس کے لیے۔ اگر ہم سچے مسلمان ہیں، تو شریعت کے ان اصولوں پر عمل کرکے اپنی مساجد کو واقعی اللہ کا گھر بنائیں، نہ کہ ظلم کی علامت۔ علمائے کرام شرعی مسائل کو جانتے ہوئے بھی ناجائز زمینوں پر مرمٹتے ہیں مطلب یہ ہے کہ یہ اسلام نہیں ناجائز گروپ ہے جنہیں اسلام کا ذرا بھی ادراک نہیں۔

