Muasharti Iqdar Ki Pamali, Media Ki Ratings Aur Gharelu Razon Ki Tashheer
معاشرتی اقدار کی پامالی، میڈیا کی ریٹنگز اور گھریلو رازوں کی تشہیر

آج کا میڈیا ایک ایسی دنیا ہے جہاں انسانی جذبات، درد اور راز سب کچھ ریٹنگز کی بھٹی میں جھونک دیے جاتے ہیں کل ایک ٹیلی ویژن شو دیکھنے کا اتفاق ہوا جہاں ایک نوجوان جوڑا بڑے فخر سے اپنی محبت کی کہانی سنا رہا تھا ساتھ اسکی محبت بھی تھی ایک ایسی کہانی جو خاندانی رشتوں کو پامال کرتی تھی اور vulgarity کی انتہا تھی۔
ہال تالیوں سے گونج رہا تھا اینکر مسکرا رہا تھا شو کو چار چاند لگ رہے تھے مگر حقیقت میں کسی خاندان کا جنازہ نکل رہا تھا جسکا کسی کو ادراک نہیں تھا ریٹنگز آسمان کو چھو رہی تھیں۔ یہ منظر دیکھ کر میں سوچنے پر مجبور ہوا کہ کیا ہماری ترقی کا مطلب یہ ہے کہ عزت اور غیرت کو پیسے کی خاطر قربان کر دیا جائے پبلک میں اپنی بیغیرتی کو بہادری بنا کر پیش کیا جائے لیکن یہ صرف ایک پہلو ہے۔ اب ایک اور دل دہلا دینے والی مثال مایہ ناز اداکار فردوس جمال کا ایک ٹی وی شو میں پھٹ پڑنا۔
فردوس جمال۔ جو پاکستانی ٹیلی ویژن کے ابھرتے ستاروں میں سے ایک ہیں کمال کے فنکار ہیں نے ایک شو میں اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرنے کی کوشش کی۔ وہ بیوی اور بچوں کی بے وفائی کی کہانی بیان کر رہے تھے وہ زخم جو انہوں نے سالوں برداشت کیے۔ آنکھوں میں آنسو چہرے پر درد کی لکیریں اور الفاظ ایسے کہ سننے والا بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔
فردوس جمال نے بتایا کہ انہوں نے دن رات محنت کی اپنی زندگی خاندان پر نچھاور کی لیکن جب ضرورت کا وقت آیا تو بیوی اور بچے بے وفائی کر بیٹھے۔ آج وہ دیار غیر میں اس کی کمائی سے عیاشی کر رہے ہیں جبکہ وہ خود پاکستان میں ایک اپارٹمنٹ میں تنہائی اور بے کسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ ستم ظریفی دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ میں نے پورا شو دیکھا اور اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا آنسو نکل پڑے۔ یہ ایک زندہ مثال ہے کہ کس طرح خاندانی رشتے جو کبھی زندگی کی بنیاد ہوتے تھے اب میڈیا کی تفریح کا ذریعہ بن چکے ہیں۔
یہ دونوں مثالیں ایک vulgarity کی انتہا اور دوسری درد کی گہرائی ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ پہلی میں لوگ پیسے اور شہرت کی خاطر اپنی عزت کو ننگا کر رہے ہیں اور دوسری میں درد کی شدت میں انسان اپنے گھریلو راز میڈیا پر اگل دیتا ہے۔ دونوں ہی صورتوں میں میڈیا ریٹنگز کی بھوک میں یہ سب کچھ پروموٹ کرتا ہے۔ اینکرز اور پروڈیوسرز کو بس ایک چیز کی فکر ہوتی ہے ناظرین کی تعداد۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ یہ انسانی زندگیاں ہیں جذبات ہیں، عزتیں ہیں۔
فردوس جمال کی کہانی سن کر لگتا ہے کہ وہ دل کا بوجھ ہلکا کرنا چاہتے تھے لیکن کیا یہ صحیح طریقہ ہے؟ میرے نزدیک گھر کی باتیں گھر میں رکھنی چاہییں میڈیا پر شیئر کرنے سے بظاہر سکون ملتا ہے مگر حقیقت میں انسان دوسروں کی نظروں سے گر جاتا ہے۔ معاشرے میں عزت کم ہو جاتی ہے اور لوگ ہمدردی کی بجائے مذاق اڑاتے ہیں۔ اسلام میں تو خاندانی رازوں کی حفاظت کو بہت اہمیت دی گئی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا مومن کی عزت اس کی مال سے بہتر ہے لیکن آج ہماری ماڈرن دنیا میں یہ اقدار بھلا دی گئی ہیں۔
میڈیا اور معاشرے پر یہ رجحان اب صرف تفریح تک محدود نہیں۔ یہ ہماری نئی نسل کو تباہ کر رہا ہے۔ ایک طرف vulgarity کو فیشن بنا دیا گیا ہے، جیسا کہ اس جوڑے کی کہانی میں اور دوسری طرف درد کو "ڈرامہ" بنا کر پیش کیا جاتا ہے جیسا کہ فردوس جمال کے کیس میں۔ نتیجہ؟ خاندانی نظام کمزور ہو رہا ہے، رشتوں میں بے اعتمادی بڑھ رہی ہے اور لوگ تنہائی کا شکار ہو رہے ہیں۔ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ تو اور بھی متاثر ہوتے ہیں وہ شوز میں آ کر اپنے راز شیئر کرتے ہیں سوچتے ہیں کہ ہمدردی ملے گی مگر ملتی ہے تو صرف ریٹنگز۔ فردوس جمال جیسی شخصیت جو سالوں فن کی دنیا میں چمکتی رہی اب تنہائی میں جی رہی ہے یہ ایک تلخ سبق ہے کہ پیسہ اور شہرت سب کچھ نہیں خاندان اور عزت کی قدر کرنی چاہیے۔
یہ دونوں کہانیاں مل کر ایک نیا رنگ دیتی ہیں میڈیا کی یہ دوڑ نہ صرف vulgarity کو فروغ دیتی ہے بلکہ حقیقی درد کو بھی کمرشل بنا دیتی ہے۔ لوگ بھول جاتے ہیں کہ ہر کہانی کے پیچھے ایک انسان ہے جذبات ہیں۔ یہ vicious cycle ہے میڈیا دکھاتا ہے لوگ دیکھتے ہیں اور مزید ایسے شوز بنتے ہیں۔
یہ صورتحال دیکھ کر ہمیں سوچنا چاہیے کیا ہم واقعی ترقی کر رہے ہیں یا اخلاقی پستی کی طرف جا رہے ہیں سبق یہ ہے کہ گھریلو مسائل کو میڈیا پر نہ لائیں انہیں خاندان میں سلجھائیں یا ماہرین کی مدد لیں والدین کو چاہیے کہ بچوں کو ایسے شوز سے دور رکھیں اور اخلاقی تعلیم دیں۔ میڈیا ریگولیٹرز کو سخت قوانین نافذ کرنے چاہییں تاکہ vulgarity اور ذاتی رازوں کی تشہیر روکی جا سکے۔ فردوس جمال کی کہانی ایک یاد دہانی ہے کہ بے وفائی کا درد برداشت کرنا مشکل ہے مگر اسے میڈیا پر شیئر کرنے سے مزید زخم ملتے ہیں۔
آئیے ایک ایسا معاشرہ ترتیب دینے کی ضرورت ہے جہاں تفریح اخلاقیات کی حدود میں رہے اور عزت کی حفاظت سب سے مقدم ہو حقیقی ترقی روح کی مطمئنی میں ہے نہ کہ ریٹنگز کی بلندیوں میں۔ اللہ ہمیں ہدایت دے اور ہماری عزتوں کی حفاظت فرمائے۔

