Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Khawaja Asif Ka Interview

Khawaja Asif Ka Interview

خواجہ آصف کا انٹرویو

امریکہ کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی خواجہ آصف کے چہرے پر ایک عجیب سی بشاشت تھی۔ شاید انہیں لگا تھا کہ عالمی میڈیا کے معروف اینکر مہدی حسن کی دعوت ان کے سیاسی قد کو عالمی سطح پر چمکائے گی۔ وہ شائد خواب دیکھ رہے تھے کہ عمران خان کی طرح وہ بھی عالمی میڈیا پر ایک مقبول لیڈر کے طور پر ابھریں گے۔ مگر انہیں کیا خبر تھی کہ مہدی حسن کا انٹرویو کوئی خوشخبری کا پیغام نہیں، بلکہ ایک آتشیں امتحان ثابت ہونے والا ہے، جہاں ہر سوال ایک تیز دھار خنجر کی مانند ان کے دعوؤں کو چیرتا چلا جائے گا۔

انٹرویو کا آغاز تو معمول کے سوالات سے ہوا لیکن اچانک مہدی حسن نے وہ وار کیا جس کی توقع خواجہ آصف کو شاید خواب میں بھی نہ تھی۔ "مسٹر آصف، آپ پر الزام ہے کہ 8 فروری کے انتخابات میں عوامی مینڈیٹ چوری کیا گیا۔ آپ کی حکومت فارم 47 کے ذریعے اقتدار میں آئی۔ کیا یہ سچ نہیں؟ یہ سوال گویا ایک دھماکہ تھا۔ خواجہ آصف کا چہرہ، جو ابھی تک مسکراہٹوں سے جگمگا رہا تھا، یکدم سیاہ پڑ گیا۔ وہ اس طالب علم کی مانند گھبرا گئے جو امتحان میں غیر متوقع سوال دیکھ کر ہاتھ پاؤں پھول جاتا ہے۔ ہکلاتے ہوئے انہوں نے کہا یہ سب الزامات ہیں۔ مگر مہدی حسن نے انہیں سانس لینے کا موقع نہ دیا۔ اسکرین پر ایک ویڈیو کلپ چل پڑا جس میں خواجہ آصف خود کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس فارم 45 موجود ہیں اور وہ شکست تسلیم کر چکے ہیں۔ یہ منظر گویا ایک زوردار طمانچے کی مانند تھا جو خواجہ آصف کے سیاسی دعوؤں کو زمین بوس کر گیا۔

ابھی یہ زخم تازہ ہی تھا کہ مہدی حسن نے دوسرا نشتر چلا دیا۔ عمران خان کو غیر قانونی طور پر قید کیا گیا۔ کیا یہ سیاسی انتقام نہیں؟ خواجہ آصف نے حسبِ روایت جواب دیا، "عمران خان کرپٹ ہیں۔ لیکن مہدی حسن کہاں باز آنے والا تھا۔ اس نے فوراً پلٹ کر کہا اگر عمران خان کرپٹ ہیں تو ان کے ساڑھے تین سالہ دور میں کوئی بڑا سکینڈل کیوں سامنے نہ آیا؟ الٹا آپ کی حکومت کے دور میں تو سکینڈلز کی بھرمار ہے۔ پھر یہ کیسے مان لیا جائے کہ عمران خان کرپٹ ہیں؟ یہ سوال ایک تیز تیر کی مانند تھا جو براہِ راست خواجہ آصف کے دل میں اتر گیا۔ انہوں نے عدالتوں کا سہارا لینے کی کوشش کی، مگر مہدی حسن نے ایک اور کاری وار کیا۔ کون سی عدالتیں؟ وہی جنہیں آپ نے 26ویں آئینی ترمیم کے ذریعے اپنے شکنجے میں لے لیا؟ وہی عدالتیں جن کے ججز نے خود خطوط لکھ کر اداروں کی مداخلت کا اعتراف کیا؟"

یہاں خواجہ آصف کی حالت اس قیدی کی سی ہوگئی جو جھوٹ بولنے کی کوشش کرے، مگر قاضی اس کے سامنے ہر ثبوت رکھ دیتا ہے۔ وہ پسینے میں شرابور، پانی کے گھونٹ لیتے، مائیک کی طرف دیکھتے اور بار بار گلا کھنکھارتے۔ لیکن مہدی حسن کا ہر سوال ایک نئی چوٹ بن کر ان پر گرتا تھا۔

پھر بات الیکشن کی شفافیت پر آئی۔ مہدی حسن نے کہا، "پاکستان تحریک انصاف کو الیکشن سے باہر کیا گیا، جبکہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو کھلی چھوٹ دی گئی۔ کیا یہ سب کچھ ریاستی اداروں کے تعاون کے بغیر ممکن تھا؟ خواجہ آصف نے سپریم کورٹ کا حوالہ دیا، مگر مہدی حسن نے فوراً جوابی وار کیا۔ سپریم کورٹ نے تو صرف انٹرا پارٹی الیکشنز کی بنیاد پر فیصلہ کیا۔ پھر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات کی جانچ کیوں نہ ہوئی؟ کیا یہ سب ایک طے شدہ کھیل نہیں تھا؟ یہ سوال سنتے ہی خواجہ آصف کے ہاتھوں کی انگلیاں بے قابو ہو کر میز پر بجنے لگیں۔ انہوں نے سر جھکا کر کچھ مبہم سا کہا، مگر ان کے چہرے پر جھوٹ کا بوجھ اتنا واضح تھا کہ اسے چھپانا ناممکن ہوگیا۔

انسانی حقوق کے سوال نے تو گویا خواجہ آصف کی رہی سہی ہمت بھی توڑ دی۔ مہدی حسن نے کہا پاکستان کی جیلوں میں خواتین قید ہیں، ہزاروں کارکن بغیر مقدمے کے گرفتار ہیں، صحافیوں کو اٹھایا جا رہا ہے۔ کیا یہ سب آپ کی حکومت کی کارستانی نہیں؟ خواجہ آصف نے نو مئی کا حوالہ دیا مگر مہدی حسن نے فوراً وار کیا۔ نو مئی کی تحقیقات کہاں ہیں؟ اگر تحقیقات ہی نہیں ہوئیں تو ہزاروں کارکنوں کو کس بنیاد پر جیلوں میں ڈالا گیا؟ خواجہ آصف نے شواہد کا دعویٰ کیا، لیکن مہدی حسن نے طنزیہ انداز میں کہا کیا واقعی پاکستان کی پولیس اتنی تیز ہے کہ دو دن میں ہزاروں لوگوں کے شواہد اکٹھے کر لیے اور پندرہ ہزار گھروں پر چھاپے مار کر گرفتاریاں کر لیں؟ یہ تو دنیا کی تاریخ کا انوکھا واقعہ ہے یہ جملہ سن کر خواجہ آصف کی آنکھوں میں گھبراہٹ صاف جھلک رہی تھی۔

آخر میں 26ویں آئینی ترمیم کا ذکر آیا۔ مہدی حسن نے کہا اس ترمیم کو پاکستان کی تاریخ کی سیاہ ترین ترمیم کہا جا رہا ہے۔ اس کے ذریعے عدلیہ کو کنٹرول کیا گیا۔ کیا یہ سچ نہیں؟ خواجہ آصف نے پارلیمنٹ کا سہارا لیا، مگر مہدی حسن نے آخری وار کیا۔ کیا یہ سچ نہیں کہ سینیٹرز کو اغوا کیا گیا، دباؤ ڈالا گیا اور زبردستی ووٹ لیے گئے؟ اختر مینگل کے سینیٹرز نے خود پریس کانفرنس میں دھمکیوں کا ذکر کیا۔ پھر یہ ترامیم کیسے آزادانہ منظور ہوئیں؟

یہاں خواجہ آصف مکمل طور پر ہتھیار ڈال چکے تھے۔ ان کی آواز بیٹھ گئی، الفاظ ٹوٹ پھوٹ کر نکل رہے تھے۔ وہ بار بار یہ عدالتوں کا کام ہے دہراتے رہے، مگر یہ جملہ اب ایک بے بسی کی چیخ بن چکا تھا۔ دوسری طرف مہدی حسن فاتحانہ انداز میں بیٹھا تھا، جیسے ایک شکاری اپنے شکار کو بے بس دیکھ کر مسکرا رہا ہو۔

یہ انٹرویو خواجہ آصف کے لیے ایک سبق تھا اور پاکستان کے سیاسی منظرنامے کے لیے ایک آئینہ۔ مہدی حسن نے نہ صرف خواجہ آصف کے دعوؤں کی قلعی کھولی، بلکہ پاکستانی سیاست کے اس تلخ حقیقت کو بھی عیاں کیا کہ جھوٹ کا بوجھ کبھی ہلکا نہیں ہوتا۔ خواجہ آصف اس انٹرویو سے شاید کبھی نہ بھولیں گے کہ عالمی میڈیا کا محاذ کوئی پاکستانی ٹاک شوز کا رنگین اسٹیج نہیں، جہاں ہر سوال کا جواب گول مول باتوں سے دیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسی آگ تھی جس میں جھوٹ کے پر جل کر خاک ہو گئے۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam