Saturday, 06 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Kasrat e Gunah, Azab e Ilahi Ka Sabab

Kasrat e Gunah, Azab e Ilahi Ka Sabab

کثرت گناہ، عذاب الہی کا سبب

یوں لگتا ہے جیسے آسمان نے اپنی ڈائری میں ہماری بداعمالیوں کا ایک ایک ورق محفوظ کر رکھا ہے۔ بارش کا ہر قطرہ۔ زمین پر اترنے سے پہلے یہ سوال کرتا ہے یہ بستی توبہ کرے گی یا ڈوبے گی؟ لیکن بستی والوں کو دیکھو تو وہ قطرے کو نعمت نہیں سمجھتے نہ عذاب۔ وہ بس چھتری کھول کر بازار کی طرف دوڑتے ہیں جہاں ناپ تول میں کمی کا کھیل جاری ہے، جھوٹ کے سکے چل رہے ہیں اور غیبت کی دکانیں کھلی ہیں۔

بادل بھی انسان کی طرح ہوتے ہیں۔ کبھی مسکرا کے برس پڑتے ہیں، تو کبھی طیش میں آکر ٹوٹ جاتے ہیں۔ جب گناہوں کا بوجھ آسمان تک پہنچ جاتا ہے تو بادل ناراضگی کے شعلے اگلنے لگتے ہیں۔ بجلی کڑکتی ہے گویا یہ اعلان کرنے کے لیے کہ رب اب خوش نہیں ہے۔ پہاڑ لرزتے ہیں، وادیاں دہلتی ہیں اور بستیاں اپنی بنیاد سمیت بہہ جاتی ہیں۔

بارش کبھی زمین کی پیاس بجھاتی ہے۔ کبھی بستیاں اجاڑ دیتی ہے۔ یہ پانی نہیں، ہمارے گناہوں کا بوجھ ہے جو آسمان سے قطرہ قطرہ برس رہا ہے۔ بادل رب کی ناراضگی کا اعلان کرتے ہیں، بجلیاں قہر کی چمک دکھاتی ہیں اور زلزلے زمین کو ہماری بداعمالیوں کی سزا سنا رہے ہیں۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارا ایک چھوٹا سا گناہ بھی اس عذاب کو دعوت دے سکتا ہے؟

ہماری امت آج گناہوں کے سمندر میں ڈوب رہی ہے۔ بازاروں میں ناپ تول کی کمی، جھوٹ کا پھیلتا کاروبار، قتل و غارت، معصوموں کے اغوا، ناجائز زمینوں پر قبضے اور بے حیائی کو تمدن کا نام دینا یہ سب ہمارے معاشرے کی تصویر بن چکے ہیں۔ ہم وہ امت ہیں جنہیں پرندے کے گھونسلے کو بھی نہ چھیڑنے کا درس دیا گیا، مگر ہم بستیاں اجاڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے علماء، جو توبہ اور اصلاح کی آواز بلند کرتے، آج منبروں سے زیادہ سیاسی جلسوں کے اسٹیج پر نظر آتے ہیں۔ تسبیح کے دانوں کی جگہ ان کے ہاتھوں میں مائیک ہے اور رب کی کتاب تعویذ بن کر رہ گئی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ رب سے غافل قومیں کبھی سلامت نہیں رہیں۔ قومِ عاد نے اپنی طاقت پر غرور کیا، مگر ریت کے طوفان نے ان کے محلات کو ملبے میں بدل دیا۔ قومِ ثمود نے اپنی کاریگری پر اترایا، لیکن ایک چیخ نے انہیں نیست و نابود کر دیا۔ فرعون نے خود کو خدا سمجھا مگر سمندر کی لہروں نے اسے اور اس کی فوج کو نگل لیا۔

آج ہمارا حال بھی مختلف نہیں۔ ہم نے توبہ کو بزدلی اور گناہوں پر ڈٹ جانے کو بہادری سمجھ لیا ہے۔ حلال کو چھوڑ کر حرام پر اکتفا کیا ہے کیا ہم یہ سوچتے ہیں کہ یہ زمین ہماری بداعمالیوں کا بوجھ ہمیشہ اٹھاتی رہے گی؟ ہر گز نہیں جب زمین پر گناہوں پر گناہ ہو جائے تو پھر رب کی ذات کو جلال آتا ہے اور آسمان سے بارش کی صورت عذاب، بادل پھٹنے اور پہاڑ کے گرنے جیسے عذاب میں مبتلا کرتا ہے جو آجکل ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں مگر یہ انسان برائیوں میں اتنا گر چکا ہے کہ توبہ کی توفیق تک نہیں۔

رب کی ناراضگی دور کرنے کا واحد راستہ اجتماعی توبہ اور استغفار ہے۔ ہمیں اپنی سیاسی مفادات اور جھوٹے غرور کو چھوڑ کر اپنی اصلاح کی فکر کرنی ہوگی۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں"اور اپنے رب سے معافی مانگو اور اس کی طرف رجوع کرو، وہ تم پر آسمان سے خوب بارش برسائے گا"۔ (سورہ ہود: 52)

توبہ صرف الفاظ نہیں، عمل کا نام ہے۔ ہمیں اپنے بازاروں میں ایمانداری، اپنی زبانوں پر سچائی اور اپنے دلوں میں رب کا خوف واپس لانا ہوگا۔ ہر فرد سے ایک چھوٹا سا عمل، جیسے ایک جھوٹ ترک کرنا، کسی کی مدد کرنا، یا معافی مانگنا، امت کی تقدیر بدل سکتا ہے۔

ہمارا رب رحیم ہے اس کی رحمت ہمارا انتظار کر رہی ہے۔ آئیں، آج سے عہد کریں کہ ہم اپنی اصلاح کریں گے۔ اپنے گھروں سے شروعات کریں، اپنی زبانوں کو سچ کا عادی بنائیں اور اپنے دلوں کو استغفار سے بھر دیں۔ اگر ہم نے ایک قدم رب کی طرف بڑھایا، تو وہ ہماری طرف ستر ماوں سے زیادہ پیار لئے متوجہ ہوتا ہے لیکن یہ امت برائیوں میں غرق ہے مگر پھر بھی رب کی طرف متوجہ نہیں ہے عذاب جاری ہے مگر گناہ کرنے سے کسی طرح بھی باز نہیں آتے

تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ جو قومیں رب سے غافل ہوئیں وہ نشانِ عبرت بن گئیں۔ آج ہمارا راستہ وہی ہے، لیکن ابھی وقت ہے۔ اجتماعی توبہ، استغفار اور اصلاح کے ذریعے ہم اس روٹھے ہوئے رب کو منا سکتے ہیں۔ آئیں، اس عذاب کی دعوت کو رحمت کی دعوت میں بدلیں کیونکہ رب کی رحمت ہر بوجھ سے بڑی ہے۔ اسکے لئے بس گڑ گڑا کر معافی مانگنے کی ضرورت ہے۔

Check Also

Bani Pti Banam Field Marshal

By Najam Wali Khan