Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Jamhuriat, Imamat Aur Islami Rooh

Jamhuriat, Imamat Aur Islami Rooh

جمہوریت، امامت اور اسلامی روح

کچھ آوازیں بلند ہوتی ہیں، جو جذباتی لہجے میں جمہوریت کو گندگی سے تشبیہ دیتی ہیں اور اسے امامت کے عظیم الشان تصور کے مقابلے میں ایک حقیر اور بے وقعت چیز قرار دیتی ہیں۔ لیکن کیا یہ دعویٰ حقیقت کے آئینے میں پرکھا جا سکتا ہے؟ کیا واقعی جمہوریت ہر حال میں باطل ہے؟ کیا یہ الہیٰ نظامِ امامت سے ٹکراتی ہے، یا پھر یہ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر امت کی رہنمائی کر سکتے ہیں؟ آئیے اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے ایک فکری سفر پر نکلتے ہیں جہاں ہم قرآن کی روشنی۔ ائمہ کے ارشادات اور امام خمینیؒ کے انقلابی تصورات سے استفادہ کریں گے۔

شیعہ مکتبِ فکر کی رگ و پے میں امامت کا تصور سمایا ہوا ہے۔ یہ وہ الہیٰ اصول ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولِ اکرمﷺ کی جانب سے مقرر کیا گیا۔ امام معصومؑ کا مقام انسانی عقل و شعور سے ماورا ہے یہ نہ ووٹ کی محتاجی جانتا ہے نہ عوامی رائے کی پابندی۔ یہ اللہ کی طرف سے عطا کردہ ایک ایسی رہنمائی ہے جو دین کی حفاظت اور امت کی فلاح کی ضامن ہے۔ لیکن جب امام معصومؑ ظاہری طور پر موجود نہ ہوں، جب امت کو ایک عملی نظام کی ضرورت ہو، تب کیا کیا جائے؟ کیا امت بے سمت رہ جائے؟ کیا اسے اپنے معاملات چلانے کے لیے کوئی راہ نہ ملے؟

یہاں سے ہمارا سفر ایک نئے موڑ کی طرف بڑھتا ہے۔ ائمہ اطہارؑ نے ہمیں بتایا کہ ایسی صورت میں فقیہ عادل کی قیادت امت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ یہ فقیہ عادل جو دین کی گہری سمجھ رکھتا ہو، جو تقویٰ اور عدل کا پیکر ہو وہ امت کو ایک ایسی سمت عطا کرتا ہے جو الہیٰ اصولوں سے ہم آہنگ ہو۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس قیادت کے تحت نظام کو عملی جامہ کیسے پہنایا جائے؟ کیا عوام کی رائے اور مشورے کا کوئی مقام ہے؟ کیا عوامی شراکت دین کے منافی ہے؟

قرآن کا پیغام: شوریٰ اور مشاورت

یہاں قرآن کریم ہماری رہنمائی کرتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے

"وَأَمُرُهُمُ شُورَى بَيُنَهُمُ"

(ان کے معاملات باہمی مشورے سے طے پاتے ہیں)۔

یہ آیت ایک عظیم الشان پیغام ہے۔ یہ بتاتی ہے کہ مشاورت اور شوریٰ اسلامی نظام کی روح ہے۔ یہ وہ اصول ہے جو امت کو باہم جوڑتا ہے، اسے اجتماعی فیصلہ سازی کی طرف لے جاتا ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں مشاورت کو اتنی اہمیت دی تو پھر جمہوریت کو یکسر مسترد کرنا کیسے ممکن ہے؟ کیا جمہوریت، جو عوام کی رائے کو اہمیت دیتی ہے، اس قرآنی اصول سے متصادم ہے یا یہ اسے عملی شکل دینے کا ایک ذریعہ ہو سکتی ہے؟

یہاں ہم امام خمینیؒ کی حکمت بھری آواز سنتے ہیں جنہوں نے عالمِ اسلام کو ایک نئی راہ دکھائی۔ انہوں نے فرمایا ہمارا نظام اسلامی جمہوریہ ہے نہ ایک لفظ زیادہ نہ ایک لفظ کم۔

یہ چند الفاظ ایک عظیم انقلاب کی بنیاد بنے۔ امام خمینیؒ نے جمہوریت کو نہ صرف قبول کیا بلکہ اسے اسلامی اصولوں کے تابع کرکے ایک ایسی شکل دی جو نہ صرف دین کے مطابق تھی بلکہ امت کی اجتماعی طاقت کو بھی اجاگر کرتی تھی۔ ان کے نزدیک جمہوریت کا مطلب یہ ہے کہ عوام کو اپنے رہبر اور نمائندوں کے انتخاب کا حق حاصل ہو۔ لیکن یہ حق قرآن و سنت اور ولایتِ فقیہ کے دائرے میں ہونا چاہیے۔ یہ وہ اسلامی جمہوریت ہے جو امامت کے اصولوں سے ٹکراتی نہیں، بلکہ انہیں عملی جامہ پہناتی ہے۔

یہاں ایک اہم نکتہ سمجھنا ضروری ہے۔ مغربی جمہوریت اور اسلامی جمہوریت کے درمیان زمین و آسمان کا فرق ہے۔ مغربی جمہوریت، جو اکثر استعماری قوتوں اور سرمایہ داروں کے ہاتھوں کا کھلونا بن جاتی ہے وہاں فیصلے عوام کی مرضی سے نہیں بلکہ طاقتور لابیوں اور دولت کے زور پر ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اسلامی جمہوریت عوام کی رائے اور دین کے اصولوں کا ایک حسین امتزاج ہے۔ یہ وہ نظام ہے جو عوام کو عزت دیتا ہے، ان کی آواز کو سنتا ہے، لیکن اسے ہمیشہ الہیٰ اصولوں کے تابع رکھتا ہے۔

جب ہم کہتے ہیں کہ جمہوریت گندگی ہے تو یہ ایک سطحی اور غیر علمی دعویٰ ہے۔ اگر جمہوریت مغرب کے ایجنڈوں کی غلام ہو تو یقیناً وہ ناپاک اور بدبودار ہے۔ لیکن اگر جمہوریت ولایتِ فقیہ کے سایے میں ہو، اگر اس کا محور قرآن و سنت ہو تو یہ ایک پاکیزہ نظام ہے جو امت کو عزت، آزادی اور ترقی کی راہ پر گامزن کرتا ہے۔

امامت اور جمہوریت میں کوئی تضاد نہیں۔ اگر کوئی تضاد ہے تو وہ درباری سیاست اور امامت کے درمیان ہے۔ وہ سیاست جو امت کو تقسیم کرتی ہے، جو طاقت کے بل بوتے پر عوام پر مسلط ہوتی ہے وہی اصل میں امامت کے تصور سے متصادم ہے۔ لیکن جمہوریت، جب وہ اسلامی اصولوں کے تابع ہو، تو وہ امامت کے عظیم تصور کو عملی جامہ پہنانے کا ایک ذریعہ بن جاتی ہے۔

امام خمینیؒ نے اس حقیقت کو نہ صرف سمجھا بلکہ اسے دنیا کے سامنے ایک زندہ مثال بنا کر پیش کیا۔ انہوں نے اسلامی جمہوریہ ایران کے قیام کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ جمہوریت اور اسلام ایک دوسرے کے ساتھ نہ صرف چل سکتے ہیں بلکہ ایک ایسی قوت بن سکتے ہیں جو عالمِ اسلام کے لیے مشعلِ راہ ہو۔ یہ نظام نہ صرف امت کو بااختیار بناتا ہے بلکہ اسے دین کے دائرے میں رہتے ہوئے ترقی اور عزت کی بلندیوں تک لے جاتا ہے۔

تو پھر آئیے ہم تعصب کی عینک اتار کر حقیقت کا سامنا کریں۔ جمہوریت کوئی حرام چیز نہیں بلکہ یہ ایک آلہ ہے ایک ذریعہ ہے۔ اگر اسے مغربی استعمار کے ہاتھوں استعمال کیا جائے تو یہ زہر بن جاتی ہے۔ لیکن اگر اسے اسلامی اصولوں کے تابع کیا جائے تو یہ ایک ایسی کشتی بن جاتی ہے جو امت کو طوفانوں سے بچا کر منزلِ مقصود تک پہنچاتی ہے۔

امامت دین کی روح ہے اور اسلامی جمہوریت اس روح کو عملی جامہ پہنانے کا ایک خوبصورت ذریعہ۔ یہ دونوں مل کر ایک ایسی ہم آہنگی پیدا کرتی ہیں جو امت کو نہ صرف متحد رکھتی ہے بلکہ اسے عزت آزادی اور ترقی کی راہ پر گامزن کرتی ہے۔ امام خمینیؒ کا قائم کردہ اسلامی جمہوریہ ایران اس کی زندہ مثال ہے جو دنیا کو دکھا رہا ہے کہ دین اور جمہوریت مل کر ایک ایسی قوت بن سکتے ہیں جو تاریخ کے دھاروں کو موڑ دیتی ہے۔

پس، آئیے ہم اس فکری سفر سے یہ سبق سیکھیں کہ جمہوریت اور امامت ایک دوسرے کے دشمن نہیں بلکہ ایک دوسرے کے ساتھی ہیں۔ یہ وہ ہم آہنگی ہے جو امت کو عروج کی بلندیوں تک لے جا سکتی ہے بشرطیکہ ہم اسے قرآن و سنت کی روشنی میں دیکھیں اور اسے ولایتِ فقیہ کے سایے میں پروان چڑھائیں۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam