Insan Apni Fitrat Ki Tarafkyun Laut-Ta Hai?
انسان اپنی فطرت کی طرف کیوں لوٹتا ہے؟

انسان اپنی فطرت کی طرف اس لیے لوٹتا ہے کہ فطرت اس کی اصل ہے۔ دنیاوی لالچ، ماحول اور حالات وقتی طور پر انسان کو بدل دیتے ہیں، مگر جب دل تھکتا ہے، ضمیر جاگتا ہے یا آزمائش آتی ہے تو انسان اپنی اصل سچائی، یعنی فطرت کی سادگی اور خلوص کی طرف واپس پلٹ جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک خاص فطرت پر پیدا کیا ہے۔ یہ فطرت سچائی، نیکی، محبت اور خلوص کی بنیاد پر قائم ہے۔ بچپن میں ہر بچہ سچ بولتا ہے، معاف کرنا جانتا ہے اور دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھتا ہے۔ یہی انسان کی اصل فطرت ہے۔ لیکن جیسے جیسے انسان بڑا ہوتا ہے، دنیا کے رنگ ڈھنگ، لالچ، حسد اور خودغرضی اس پر اثر ڈالنے لگتی ہے۔ وہ اپنی اصل سادگی اور پاکیزگی سے دور ہو جاتا ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیاوی لذتیں وقتی سکون دیتی ہیں۔ جب دل تھکتا ہے، جب خواہشیں پوری ہونے کے باوجود انسان کو اندر سے سکون نہیں ملتا، تب وہ سوچتا ہے کہ اصل خوشی کہاں ہے۔ یہی لمحہ ہوتا ہے جب انسان اپنی اصل فطرت کی طرف لوٹنے لگتا ہے۔
مثال کے طور پر۔۔
ایک بچہ جب جھوٹ بولتا ہے تو فوراً اس کا دل گھبراتا ہے، کیونکہ اس کی اصل فطرت جھوٹ کو قبول نہیں کرتی۔
ایک گناہ گار شخص جب مشکل میں پھنس جاتا ہے تو بے اختیار اللہ کو یاد کرنے لگتا ہے، کیونکہ دل کی گہرائی میں وہ جانتا ہے کہ اصل سکون صرف اپنے رب سے مانگنے میں ہے۔
ایک لالچی انسان دولت کے ڈھیر جمع کرکے بھی خالی پن محسوس کرتا ہے، تب وہ سمجھتا ہے کہ سکون محبت بانٹنے اور دوسروں کی مدد کرنے میں ہے۔
ان سب مثالوں سے یہ بات واضح ہے کہ چاہے انسان کتنا ہی دنیا میں کھو جائے، لیکن اس کا دل اور ضمیر اسے بار بار اپنی اصل فطرت کی طرف بلاتا رہتا ہے۔ آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ انسان کی اصل پہچان اس کی فطرت ہے۔ دنیاوی عادات وقتی ہیں، لیکن فطرت ہمیشہ باقی رہتی ہے۔ اسی لیے انسان جب تھکتا ہے، جب گمراہ ہوتا ہے یا جب سچائی کی تلاش میں نکلتا ہے، تو وہ آخرکار اپنی فطرت کی طرف لوٹ آتا ہے۔

