Hamari Barbadi Ka Noha
ہماری بربادی کا نوحہ

پاکستان کی کہانی عجیب ہے۔ یہ ایک خواب سے شروع ہوئی تھی۔ اقبال نے خواب دیکھا، جناح نے تعبیر دی اور عوام نے اس تعبیر کو خون سے سینچا۔ مگر ابھی مٹی گیلی ہی تھی، ابھی شہیدوں کا خون خشک نہ ہوا تھا کہ اس ملک پر وہی پرانے جاگیردار، وہی استعماری نوکر، وہی دربار پرست مسلط ہو گئے جن کے خلاف یہ وطن حاصل کیا گیا تھا۔ گویا آزادی کی صبح کے بعد غلامی کی شام فوراً اتر آئی۔ ہمیں بتایا گیا کہ یہ ملک جمہوریت کے لیے بنا ہے، مگر جو جمہوریت ملی وہ محض چند خاندانوں کی ملوکیت تھی۔ ایوب خان نے آمریت کا دروازہ کھولا اور پھر اسی دروازے سے بھٹو خاندان داخل ہوا، جو عوامی خدمت کے نام پر نسل در نسل خدمت کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ بھٹوؤں کی سیاست میں عوام ہمیشہ زندہ باد رہے اور عوام خود ہمیشہ مردہ باد۔
پھر نواز شریف خاندان آیا، ایک آمر کی گود سے پرورش پا کر یوں لگنے لگا جیسے اقتدار ان کی ذاتی جاگیر ہے۔ ملک کے ہر کونے میں ایسے ہی خاندان ابھرے جنہوں نے ووٹ کو یرغمال اور عوام کو غلام بنا رکھا ہے۔ یہ وہی غلامی ہے جس کے خلاف پاکستان بنایا گیا تھا۔ انتخابات کا تماشا ہر پانچ سال بعد لگتا ہے۔ ڈھول بجتے ہیں، نعرے لگتے ہیں، رنگ برنگے جھنڈے لہراتے ہیں، مگر کھیل کا نتیجہ پہلے سے طے شدہ ہوتا ہے۔ بیلٹ بکس میں عوام کی رائے نہیں بلکہ خاندانوں کی موروثی وراثت ڈالی جاتی ہے۔ پولیس، بیوروکریسی، میڈیا سب کو یرغمال بنا کر عوامی نمائندے مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ یہ نمائندے پھر اپنے تجارتی مفادات کے پہرے دار بن جاتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبے بھی وہیں بنتے ہیں جہاں ان کے محلات کے راستے جاتے ہوں۔
عوام کے لیے جمہوریت صرف ووٹ ڈالنے کا نام رہ گیا ہے اور وہ بھی خوف کے سائے میں۔ اگر فلاں خاندان کو ووٹ نہ دیا تو زمین چھن جائے گی، نوکری ختم ہو جائے گی۔ گویا یہ جمہوریت نہیں بلکہ جدید غلامی ہے، جسے رنگین پردے میں چھپا دیا گیا ہے۔ معیشت پر انہی خاندانوں کا قبضہ ہے۔ شوگر ملیں، اسٹیل ملیں، امپورٹ ایکسپورٹ کے راستے، سب انہی کے زیرِ دست۔ دولت یہاں سے لوٹ کر لندن، دبئی، یورپ بھیجی جاتی ہے۔ وہاں ان کی اولادیں محلات میں عیش کرتی ہیں اور یہاں مزدور اپنی روٹی کے لیے ہڈیوں کا گودا بیچتا ہے۔
عدالتیں اشرافیہ کے لیے نرم بستر ہیں اور عوام کے لیے لوہے کی سلاخیں۔ مقدمے دہائیوں تک عام آدمی کے گلے کا پھندا رہتے ہیں، مگر بڑے سیاستدان اور صنعتکار ایک دن میں رہا ہو جاتے ہیں۔ احتساب بھی ایک کھیل ہے، ایک اسٹیج ڈرامہ، جس کا ہدایت کار کہیں اور بیٹھا ہوتا ہے۔ طاقتور اداروں نے بھی ان خاندانوں کے ساتھ گٹھ جوڑ بنا لیا ہے۔ سیاستدان ان کے بل پر مسند نشین ہوتے ہیں اور ادارے ان سیاستدانوں کے ذریعے اپنی گرفت مضبوط رکھتے ہیں۔ جو سر جھکائے وہ آگے بڑھتا ہے، جو سر اٹھائے وہ یا تو غدار قرار دیا جاتا ہے یا پھر ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹا دیا جاتا ہے۔
یوں پاکستان ایک جمود کا شکار ہے۔ ہر الیکشن ایک تماشا، ہر حکومت ایک کٹھ پتلی اور ہر وعدہ محض ایک فریب۔ عوام سے کہا جاتا ہے کہ تبدیلی آئے گی، لیکن آتا کچھ نہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ جمود کب ٹوٹے گا؟ عوام کب جاگیں گے؟ کب وہ طلسم ٹوٹے گا جس نے ملک کو چند خاندانوں کا یرغمال بنا رکھا ہے؟ کب اصل جمہوریت، یعنی عوام کی حکمرانی اس سرزمین پر جنم لے گی؟
اگر یہ بیداری نہ آئی تو یہ خواب واقعی ڈراؤنا خواب بن جائے گا۔ اقبال کا خواب ایک نائٹ میر کی شکل اختیار کرتا رہے گا۔ لیکن اگر عوام نے اپنی طاقت پہچان لی تو پھر وہ پاکستان جنم لے گا جس کی بنیاد عدل، مساوات، قانون اور خودداری پر رکھی گئی تھی۔ فی الحال مگر منظرنامہ یوں ہے کہ قوم غلامی کی زنجیروں میں جکڑی ہے اور موروثی سیاست نے ریاست کی روح کو زخمی کر دیا ہے۔ یہ زخم اتنے گہرے ہیں کہ ان کا بھرنا محال دکھائی دیتا ہے اور یہی زخم پاکستان کی اصل کہانی ہیں ایک ایسا ملک جو آزاد ہوا مگر اصل معنوں میں عملی طور پر آزاد نہ ہو سکا۔ یہ قوم کی بدنصیبی ہے۔

