Hakim e Waqt Tum Kahan Ho?
حاکمِ وقت تم کہاں ہو؟

یہ سوال میرے دل کو بار بار چیرتا ہے کیا ہم واقعی ایک زندہ سماج میں جی رہے ہیں؟ ہر روز کوئی نہ کوئی دردناک سانحہ ہوتا ہے ظلم کی نئی داستان رقم ہوتی ہے لیکن ردعمل؟ صرف مذمتی بیانات رسمی پریس کانفرنسیں اور سوشل میڈیا پر نوحہ گری! کیا یہی ہے حکمرانی کا فرض؟ کیا یہی ہے ریاست کا کردار؟
حاکمِ وقت سے لے کر عام شہری تک سب تماشائی بنے بیٹھے ہیں۔ خون بہتا ہے، عزتیں پامال ہوتی ہیں بچے یتیم ہوتے ہیں، مائیں بیوہ ہو جاتی ہیں لیکن کوئی ہاتھ نہیں اٹھاتا کوئی قدم نہیں بڑھتا مجرم دندناتے پھرتے ہیں اور قانون اپنے رکھوالوں سمیت نیند کی گہری وادی میں کھویا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ معاشرہ جنگل بن چکا ہے جہاں درندے آزاد اور مظلوم پابند سلاسل ہیں مارنے والا آزاد گھومتا ہے اور مرنے والے کے لواحقین زندگی بھر کے کرب میں تڑپتے رہتے ہیں کتنے ہی گھرانے اجڑ گئے، کتنے ہی چراغ بجھ گئے، لیکن انصاف ایک خواب ہی رہا اور خواب بھی ایسا جو ہر بار آنکھ کھلتے ہی چکناچور ہو جائے۔
سوال یہ ہے کہ کیا ریاست ایسے مجرموں سے خوف زدہ ہے؟ یا ماضی کی حکومتوں کی طرح صرف بیانات سے لوگوں کو بہلانے کی روش کو ہی نجات کا ذریعہ سمجھ بیٹھی ہے؟ وہ ادارے جو عوام کے جان و مال کے محافظ ہیں، وہ جب ناکام ہو جائیں تو کیا ان کی تنخواہیں، مراعات اور عیاشیاں جائز رہتی ہیں؟ کیا ان سے بازپرس نہ ہونا ایک اور جرم نہیں؟ کاش کوئی ان اداروں کے ذمہ داران سے پوچھے تمہیں یہاں کیوں رکھا گیا ہے؟
تم کس کام کے ہو؟ تم کب جاگو گے؟ تم کب نبھاؤ گے اپنی ذمہ داریاں؟
یہ سب سن کر بس دل سے ایک ہی دعا نکلتی ہے اے ربِ کائنات! ظلم کی کوکھ سے جنم لینے والے ان اندھوں، بہروں اور گونگوں کو رسوا کر دے۔
ایسا ذلیل کر کہ زمین پر ان کے لیے پاؤں رکھنے کی جگہ نہ بچے۔ ایسا عبرتناک انجام دے کہ زمانہ دیکھے اور عبرت پکڑے انصاف کے علمبرداروں کے قلم بکتے جا رہے ہیں منصفوں کے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں اور مجرموں کے لیے قانون نرم پڑ گیا ہے اور حاکم وقت؟ وہ بس تماشا دیکھ رہے ہیں۔
اے منصفو! تم کس مرض کی دوا ہو؟ تم کب تک لفظوں کا ہیر پھیر کرتے رہو گے؟ تم کب اپنی آنکھیں کھولو گے؟ تم کب اپنے ضمیر کی آواز سنو گے؟
آج میرے قلم کی نوک سے جو صدا نکل رہی ہے وہ ایک دل گرفتہ مظلوم کی فریاد ہے۔
ایک ایسی فریاد، جو ربِ ذوالجلال کے حضور التجا بن کر بلند ہو رہی ہے
اے میرے مالک!
ظالموں کو بےنقاب کر دے۔
ان پر اپنا عذاب نازل فرما۔
انہیں رسوا کر۔
ان کی چیخیں زمانہ سنے۔
انہیں ایسی زندگی دے جو موت سے بدتر ہو۔
نہ سکون ہو، نہ چین، نہ پناہ۔
یہ دعا ہے ایک ایسے دل کی جو ظلم سے نڈھال ہے۔
ایسی زبان کی جو حق گوئی سے نہیں ڈرتی۔
اور ایسے قلم کی جو صرف سچ لکھتا ہے۔ یہ وقت ہے بیداری کا یہ وقت ہے سوال کرنے کا اور یہ وقت ہے ظالموں سے بازپرس کرنے کا حاکم وقت ان تمام خراب حالات میں تم کہاں ہو تم کس مرض کی دوا ہو کچھ ہمیں بھی بتا دو۔

