Ghair Mayari Khorak Amwat Ka Sabab Ban Rahi Hain
غیر معیاری خوراک اموات کا سبب بن رہی ہیں

عزیز وطن پاکستان میں غیر معیاری خوراک ایک خاموش قاتل کی صورت اختیار کر چکی ہے جو عوام کی صحت کو شدید خطرات سے دوچار کر رہی ہے۔ بازاروں میں ناقص اور ملاوٹ زدہ اشیائے خوردونوش کی بہتات ہے جن پر کوئی مؤثر چیک اینڈ بیلنس موجود نہیں۔ دودھ، گوشت، دالیں، تیل اور پیک شدہ مصنوعات میں مضر صحت اجزاء کی آمیزش نے ہر گھر کو بیماریوں کا گھر بنا دیا ہے۔ ہسپتال مریضوں سے بھرے پڑے ہیں لیکن اصل وجہ یعنی ناقص خوراک کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ اگر فوری طور پر معیاری خوراک کی فراہمی، جدید لیبارٹری ٹیسٹنگ اور فوڈ اتھارٹی کا فعال نظام قائم نہ کیا گیا تو یہ مسئلہ ایک سنگین انسانی بحران میں تبدیل ہو جائے گا۔ عوام کی صحت سے سمجھوتہ کرنا دراصل آنے والی نسلوں کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہے۔
میں ایک شہری ہونے کی حیثیت سے آپ کی توجہ اس سنگین مسئلے کی جانب مبذول کروا رہا ہوں جو پورے پاکستان بالخصوص گلگت بلتستان جیسے خوبصورت خطے میں غیر معیاری اور زہریلی خوراک کی شکل میں موت کا سایہ بن کر پھیل رہا ہے۔ یہ خطہ جو کبھی اپنی خالص ہوا، پانی، دودھ اور شہد کی پاکیزگی کے لیے مشہور تھا، آج ملاوٹ زدہ خوراک کے جال میں پھنس چکا ہے۔ بازاروں میں دودھ میں کیمیکلز کی ملاوٹ، گھی میں ناقص تیل کی آمیزش، مصالحوں میں نقلی رنگوں کا استعمال اور پانی میں آلودگیاں عام ہو چکی ہیں۔ یہ نہ صرف ذائقے کی تباہی ہے بلکہ انسانی زندگیوں پر کاری ضرب ہے۔
طبی رپورٹس اور عوامی مشاہدات سے ظاہر ہے کہ پاکستان بھر میں ہر تیسرا شخص کسی نہ کسی بیماری کا شکار ہے معدے کی خرابی، جگر کے امراض، گردوں کے مسائل اور اچانک اموات۔ یہ سب اس زہر کا نتیجہ ہیں جو خوراک کے نام پر ہمارے جسموں میں داخل ہو رہا ہے۔ مہنگائی نے غریبوں کی کمر توڑ دی ہے اور اب ٹھگ مافیا غیر معیاری خوراک کے ذریعے ان کی زندگیوں سے کھیل رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ سرکاری ادارے بشمول فوڈ اتھارٹیز، رشوت ستانی کے عوض خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔ چھاپوں کی کارروائیاں محض رسمی ہوتی ہیں اور اگلے ہی دن وہی دکاندار اپنے ناپاک دھندے میں واپس لوٹ آتے ہیں۔
ہمارا معاشرہ جو خود کو اسلامی کہتا ہے اسلامی اقدار سے کوسوں دور ہے۔ اسلام انسانی جان کی حفاظت کو سب سے مقدم رکھتا ہے، مگر یہاں چند سکوں کی خاطر لوگوں کی زندگیوں سے کھیلا جا رہا ہے۔ دوسری طرف مسلم ممالک جیسے سعودی عرب میں ناقص خوراک یا صفائی کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں نافذ کی جاتی ہیں۔ مثال کے طور پر، جدہ میں ایک ہوٹل کو ناقص صفائی کی وجہ سے نہ صرف بند کیا گیا بلکہ 10 ہزار ریال کا جرمانہ بھی عائد کیا گیا۔ اس کے برعکس ہمارے ہاں حکمرانوں سے لے کر نچلے اہلکاروں تک ہر کوئی کرپشن اور حرص میں ڈوبا ہوا ہے۔
نیز غیر مسلم ممالک میں ملاوٹ عیب مانا جاتا ہے ہم مسلمان ہو کر ملاوٹ کو عیب نہیں سمجھتے جبکہ غیر مسلم اسکو انسانی قتل کے مترادف سمجھتے ہیں یہ ہم مسلمانوں کے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ ہمارے معاشرے میں غریب کی موت کوئی اہمیت نہیں رکھتی بس ٹھگوں ملاوٹ خوروں کی جیبیں بھری ہونی چاہئے۔ ایک حساب دنیا کا ہے دوسرا حساب و کتاب آخرت کا ہے جہاں اللہ کی عدالت لگے گی وہاں بچنے کی کوئی گنجائش نہیں کیونکہ وہاں انسان کا ہر اجزا اسکے کرتوت کی گواہی دیگا ہم مسلمان روز قیامت پر ایمان رکھنے کے باوجود غفلت کا شکار ہیں آخر کیوں؟
یہ ملاوٹ جیسا زہر صرف خوراک تک محدود نہیں یہ ہمارے نظام کی کرپشن اور اخلاقی گراوٹ کی عکاسی ہے۔ اگر فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو آنے والی نسلیں صحت کا مطلب ہی بھول جائیں گی۔ اس لیے، میں مندرجہ ذیل گزارشات پیش کرتا ہوں۔۔
فوڈ اتھارٹیز کو فعال اور شفاف بنایا جائے باقاعدہ چھاپوں کی نگرانی اعلیٰ سطح پر ہو اور نتائج عوام کے سامنے پیش کیے جائیں۔
غیر معیاری خوراک بیچنے والوں کے خلاف فوری جرمانے کاروبار کی بندش اور جیل کی سزائیں نافذ کی جائیں۔
عوام کو غیر معیاری خوراک کے خطرات سے آگاہ کرنے کے لیے قومی سطح پر مہم چلائی جائے تاکہ وہ خود اپنی صحت کے محافظ بنیں۔
ہر صوبے اور خطے، بالخصوص گلگت بلتستان میں جدید لیبارٹریز قائم کی جائیں تاکہ خوراک کی جانچ فوری اور قابل اعتماد ہو۔
رشوت ستانی کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اپنائی جائے اور متعلقہ افسران کو جوابدہ بنایا جائے۔
یہ خط ایک شکایت سے بڑھ کر ایک قومی فریضہ ہے۔ عوام کی زندگیاں محض اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک امانت ہیں۔ براہ مہربانی، اس بحران کو ترجیحی بنیادوں پر حل کریں اور فوری اقدامات کا اعلان کریں۔ اگر یہ زہریلی بہتات جاری رہی تو یہ نہ صرف گلگت بلتستان بلکہ پورے پاکستان کی صحت، اعتماد اور مستقبل کو تباہ کر دے گی۔ آج جتنی بھی اموات ہو رہی ہیں یہ سب غیر معیاری خوراک کی وجہ سے ہیں لہذا اسکے لئے اقتدار سے وابستہ اور متعلقہ اداروں کو سدباب کرنے کی ضرورت ہے تاکہ قیمتی جانیں بچ سکیں۔

