Etemad Kis Par Karen
اعتماد کس پر کریں

زندگی کی سب سے بڑی آئینہ داری یہ ہے کہ دھوکہ اکثر وہی دیتا ہے جس پر آپ نے سب سے زیادہ اعتبار کیا ہو۔ دوست، محبوب، شریکِ سفر یہ سب تو سمجھ آتے ہیں۔ لیکن جب وہ دھوکہ نبیوں کے وارث کہلانے والے دیں، تو صدمہ محض ذاتی نہیں رہتا، ایک اجتماعی المیہ بن جاتا ہے۔ ہمارے ہاں دین اب عبادت کم اور کاروبار زیادہ ہے۔ جمعے کے خطبے، یوٹیوب کی ویڈیوز، ٹوئیٹر کے بیان، سب کچھ پیکنگ شدہ پراڈکٹ کی طرح بیچا جا رہا ہے اور اس کاروبار کے اصل تاجر وہ ہیں جو خود کو "عالم" اور "اسکالر" کہلاتے ہیں۔
بات کرتے ہیں تو ایسے جیسے فرشتے خود کان لگا کر سن رہے ہوں اور عمل وہ کرتے ہیں جو کسی بازاری سوداگر کو بھی شرمندہ کر دے۔ یہ صاحبانِ عمامہ جن پر آنکھ بند کرکے اعتبار کیا گیا، وہی پیسے کھا گئے۔ خطیر رقم ہڑپ کرکے اب فون اٹھانا تو دور، خواب میں بھی جواب نہیں دیتے۔ دن کو لوگوں کو حلال و حرام کے درس دیتے ہیں، رات کو حرام کو اپنی تجوریوں میں بھر لیتے ہیں۔ تبلیغ میں"حرام نہ کھانے" کی تلقین اور عمل میں"حرام کو ہڑپنے" کی مشق۔ یہ ہے ہمارے مذہبی تاجروں کا اصل چہرہ۔
کہنے کو نماز کے پابند ہیں، روزوں کے محافظ ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کون سی نماز ہے یہ، جو کسی کا حق دبا کر پڑھی جائے؟ کون سا روزہ ہے یہ، جو کسی کی محنت کھا کر رکھا جائے؟ کیا یہ سب رب کو دھوکہ دینے کا سامان ہے یا پھر اپنی ہی دنیا کے تکیے کو نرم کرنے کا کھیل؟
میں آج بھی کہتا ہوں، جس طرح انہوں نے میرا سرمایہ کھایا ہے، میں اس کو کبھی معاف نہیں کروں گا۔ اگر یہ دنیا چھوڑ بھی دیں تو میرے سینے پر بوجھ تبھی ہٹے گا جب ان کا جنازہ لوگوں کے کندھوں پر ہو اور میں ان سے وہی سوال کر سکوں جو آج کر رہا ہوں یہ کون سی وراثتِ نبوت تھی جو تم نے پیسے ہڑپنے میں دکھائی؟ نیز جب تک میری رقم نہیں ملے گی میں انکو دفن تک بھی نہیں دونگا بیشک انکی لاشیں پڑی رہیں سڑ جائیں اور کتے کھا جائیں
حقیقت یہ ہے کہ اس دور میں سب سے بڑے چور ڈاکو وہ نہیں جو سڑک کنارے کسی کی جیب کاٹتے ہیں، بلکہ وہ ہیں جو منبر پر بیٹھ کر قرآن پڑھتے ہیں اور پیچھے سے لوگوں کی جمع پونجی ڈکار جاتے ہیں۔ عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالنے والے اگر چور ہیں، تو دین کے نام پر فراڈ کرنے والے سب سے بڑے حرام خور ہیں۔ یہ ہے آج کے دور کی اصل وراثتِ نبوت منبر کے سوداگر اور محراب کے تاجروں کی دکان اب اس جہاں میں کسئی بھی شخص اعتماد کے قابل نہیں رہا یہ دنیا اب ٹھگوں کی دنیا ہے۔

