Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Ehtejaj, Muhabbat Aur Wardi Ka Romance

Ehtejaj, Muhabbat Aur Wardi Ka Romance

احتجاج، محبت اور وردی کا رومانس

کبھی کبھی زندگی ایسی کہانیاں لکھ دیتی ہے جنہیں بڑے بڑے ناول نگار بھی تخلیق نہ کر سکیں اور ان کہانیوں کے سین اتنے دلکش ہوتے ہیں کہ قاری کو ہنسی بھی آتی ہے اور آنکھیں نم بھی ہو جاتی ہیں۔ شہر کے بیچوں بیچ ایک احتجاجی ریلی تھی۔ عوام کے ہاتھوں میں پلے کارڈز چہروں پر غصے کی جھلک، نعروں میں صدائے بغاوت۔ ہجوم کا شور تھا مگر اس شور میں ایک عورت کی آواز سب سے نمایاں تھی۔

وہ عورت بیوی تھی اور بیوی ہمیشہ گھر میں احتجاج کرتی ہے، کبھی مہنگائی پر، کبھی بجلی کے بل پر، کبھی شوہر کی لاپرواہی پر۔ مگر آج اس کا احتجاج ذرا بڑا تھا۔ وہ گھر سے نکل کر پورے نظام کے خلاف نعرے لگا رہی تھی۔ ادھر حکومت کو یہ شور پسند نہ آیا۔ وردی والوں کو حکم ملا کہ اس احتجاج کو قابو میں لایا جائے۔ پولیس جوانوں کی ایک قطار سڑک پر آ کھڑی ہوئی۔ ان میں سے ایک شوہر بھی تھا۔ وردی میں، سخت چہرہ، ہاتھ میں لاٹھی اور ماتھے پر وہ رعب جسے مصنوعی طور پر اوپر والوں نے عطا کیا۔

اب کہانی کا اصل سین دیکھئے۔ ہجوم اور پولیس آمنے سامنے۔ نعرے اور ڈنڈے آمنے سامنے۔ مگر ان سب سے بڑھ کر ایک شوہر اور ایک بیوی آمنے سامنے۔ بیوی چیخی ظلم نامنظور شوہر نے ڈنڈا بلند کیا دل سے صدا نکلی محبت منظور باقی سب نامنظور یہ لمحہ ایسا تھا جیسے پورے شہر کی سیاست اچانک رومانس میں بدل گئی ہو۔ ایک طرف جمہوریت کا نعرہ دوسری طرف طاقت کا حکم اور بیچ میں دو دل جو صرف ایک دوسرے کو پہچانتے تھے۔ یہ وہی ملک ہے جہاں اقتدار والے ہر روز وعدے کرتے ہیں مہنگائی ختم ہوگی خوشحالی آئے گی، سب کچھ ٹھیک ہوگا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہاں بیوی سڑک پر احتجاج کرتی ہے اور شوہر کو اسی احتجاج کو روکنے کی ڈیوٹی دی جاتی ہے۔ گویا اقتدار کا کھیل اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ میاں بیوی کے بیچ بھی فاصلے ڈال دیتا ہے۔ ذرا سوچئے اس ہجوم میں باقی سب لوگ اجنبی ہیں مگر شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے سب سے بڑے رازدار۔ پھر بھی دونوں ایک ہی وقت میں دو مختلف کیمپوں میں کھڑے ہیں۔ یہ وہی المیہ ہے جو اس قوم کے ساتھ ہوا۔ یہاں عوام ایک طرف کھڑے ہیں، حکمراں دوسری طرف۔ عوام روٹی مانگتے ہیں، حکومت ٹیکس بڑھاتی ہے۔ عوام انصاف مانگتے ہیں، حکومت ان پر لاٹھی چارج کرواتی ہے۔

کیا یہ مضحکہ خیز نہیں کہ ایک گھر میں چولہا ٹھنڈا ہے اور دوسری طرف شوہر کو گیس شیل پھینکنے کی تنخواہ مل رہی ہے؟ بیوی سڑک پر نعرے لگاتی ہے کہ ہمارا حق دو اور شوہر کو اوپر سے حکم ملتا ہے کہ خاموش کرا دو۔ یہ ہے وہ تماشا جو اس ملک کے ہر کونے میں کھیلا جا رہا ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سب کے باوجود محبت کا احتجاج سب سے طاقتور ہے۔ بیوی کے لبوں کی مسکراہٹ اور شوہر کی آنکھوں کی نمی کسی ڈنڈے، کسی آنسو گیس، کسی حکمِ بالا سے شکست نہیں کھا سکتی۔ یہ وہ احتجاج ہے جو تاریخ لکھتا ہے اور یہ وہ جیت ہے جسے کوئی حکومت ہرا نہیں سکتی۔

یہ محبت اور مزاحمت کا وہ سین تھا جس پر شاید کوئی فلم بنے تو لوگ تالیاں بجائیں۔ مگر افسوس یہ ہے کہ ہمارے ملک میں یہ کوئی فلمی منظر نہیں، یہ اصل کہانی ہے۔ یہاں ہر گھر میں کوئی نہ کوئی احتجاج کر رہا ہے اور کوئی نہ کوئی اس احتجاج کو روکنے کی ڈیوٹی پر ہے۔ سچ پوچھیے تو یہ احتجاج اور طاقت کی جنگ ختم نہیں ہوتی۔ مگر محبت کا احتجاج ہمیشہ جیت جاتا ہے۔ کیونکہ اقتدار کا حکم عارضی ہے، لیکن آنکھوں کی وہ نمی اور لبوں کی وہ مسکراہٹ ہمیشہ کے لیے دل میں نقش ہو جاتی ہے۔ کہنے کو ریاست ماں جیسی مگر یہاں تو یہ ریاست سوتیلی ماں کا کردار ادا کر رہی ہے افسوس افسوس۔۔

Check Also

Mufti Muneeb Ur Rehman

By Abid Mehmood Azaam