Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Bawle Kutton Ka Raj Aur Pareshan Awam

Bawle Kutton Ka Raj Aur Pareshan Awam

باولے کتوں کا راج اور پریشان عوام

شہر کی گلیوں میں کتوں کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ کوئی کہتا ہے فلاں بستی میں کسی بچے کو کاٹ لیا، کوئی کہتا ہے فلاں بزرگ اسپتال میں ایڑیاں رگڑ رہا ہے۔ مگر غور کیجئے تو یہ کتے بھی عجیب انصاف پسند نکلے، وہ امیروں کے نہیں، صرف غریبوں کے گوشت کا ذائقہ چکھتے ہیں۔ شاید انہیں بھی معلوم ہے کہ طاقتور کے دروازے پر کاٹنے کے لئے نہیں بیٹھنا، وہاں ہڈی ملتی ہے، لاٹھی نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آخر یہ باولے کتے کہاں سے آئے؟ حقیقت یہ ہے کہ یہ کوئی جانور نہیں، بلکہ ہمارے اعمال کا مجسم روپ ہیں۔ ہم نے جن گناہوں کو لذت سمجھ کر برسوں کی محفلوں میں سجایا، وہی اب ناسور بن کر ہماری بستیوں میں دندناتے پھر رہے ہیں۔ یہ کتے ہمارے گناہوں کے محافظ ہیں، ہماری غفلت کے پہریدار ہیں۔

پورے ملک کا نظام بھی انہی باولے کتوں کے سپرد ہے۔ سیاست کے ایوان ہوں یا عدالت کے کمرے یونیورسٹی کے دروازے ہوں یا تھانے کی راہداری ہر جگہ باولے کتوں کے جتھے نظر آتے ہیں۔ ان کے منہ لہو سے تر ہیں اور تاریخ کا فیصلہ ہے کہ جس کتے کے منہ کو لہو لگ جائے، وہ کبھی باز نہیں آتا۔ قارئین کرام! اس کا حل کیا ہے؟ دو ہی راستے ہیں۔ پہلا یہ کہ ہم اپنے گناہوں کی تلافی کریں، صدق دل سے اللہ سے معافی مانگیں۔ جب رب راضی ہوگا تو ان کتوں کے دانت ٹوٹیں گے۔ دوسرا یہ کہ ہم انقلاب کی راہ پر سوچیں کیونکہ یہ نظام اب کسی مرہم سے نہیں سنبھلے گا۔

یہ کتے یونہی بڑھتے گئے تو انجام وہی ہوگا جو جنگل میں اکیلے ہرن کا ہوتا ہے بھیڑیوں کے جھرمٹ میں لمحہ بہ لمحہ چیرا جانا کھایا کم جانا اور رلایا زیادہ جانا۔ لیکن ابھی وقت ہے۔ یہ کتے محدود ہیں، ان کی تعداد کم ہے۔ اگر ہم متحد ہو جائیں تو یہ سب بھاگ جائیں گے۔ ہمیں اپنے گھروں کے دروازے مضبوط کرنے ہوں گے اپنی بستیوں کی نگرانی خود کرنی ہوگی، اپنے بچوں کو ان سے بچانے کے لئے مل جل کر قدم اٹھانا ہوگا۔ سب سے بڑھ کر ہمیں اپنی روحانی اور اخلاقی زنجیریں توڑنی ہوں گی، کیونکہ کتے صرف وہاں داخل ہوتے ہیں جہاں کچرا پڑا ہوتا ہے۔

ہم نے اگر اپنی گلیوں کو، اپنے کردار کو اور اپنے دلوں کو پاک کرلیا تو یہ باولے کتے خود بخود بھاگ جائیں گے۔ لیکن اگر ہم یونہی غفلت کی نیند سوتے رہے تو پھر کتے نہیں، بھیڑیوں کے جتھے ہمیں گھیر لیں گے اور بھیڑیوں کی فطرت ہے وہ ناچتے زیادہ ہیں اور کھاتے کم۔

یاد رکھیں! اگر ہم نے آج ان باولے کتوں کے خلاف قدم نہ اٹھایا تو کل ہمارے بچے انہی کے کھیل کا کھلونا ہوں گے اور تب ہم صرف یہ سوچ کر روتے رہ جائیں گے کہ کاش ہم وقت پر جاگ جاتے۔ وقت پر ان سے نمٹتے مگر اسوقر دیر ہوچکی ہوگی تھوڑا نہیں پورا سوچیں کہیں دیر نہ ہوجائے۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan