Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shair Khan
  4. Baba Chillasi Muhabbaton Ka Safeer, Aman Ka Payambar

Baba Chillasi Muhabbaton Ka Safeer, Aman Ka Payambar

بابا چلاسی محبتوں کا سفیر، امن کا پیامبر

بابا چلاسی جن کا اصل نام غلام النصیر تھا، ضلع دیامر (چلاس) کے ایک عظیم روحانی اور سماجی رہنما تھے، جنہیں خطے کے لوگ محبتوں کا سفیر کے نام سے یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی امن، اتحاد اور بھائی چارے کے پیغام کو پھیلانے کے لیے وقف کر دی۔ ان کی آواز میں صبر کی مٹھاس، زہد کی سادگی اور محبت کی گہرائی تھی، جو ہر دل کو چھوتی تھی۔ وہ نہ صرف ایک عالم، بلکہ ایک درویش، شاعر اور مفکر تھے، جنہوں نے چھ سے زائد زبانوں پر عبور حاصل کیا اور اپنے قلم و کلام سے انسانیت کی خدمت کی

بابا چلاسی صرف ایک روحانی رہنما ہی نہیں، بلکہ ایک عظیم متکلم، شاعر اور ادیب بھی تھے۔ ان کی کتابیں اور تقاریر خطے کے درد، اس کی تاریخ اور اس کے مسائل کی گہری سمجھ کا آئینہ ہیں۔ انہوں نے اپنے علم سے نہ صرف لوگوں کو روشناس کیا بلکہ انسانیت کی تربیت کا فریضہ بھی سرانجام دیا۔ ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اسلام آباد کے نصابی اداروں نے ان کی کتب کو قومی نصاب کا حصہ بنایا، جو ان کے علمی قد کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ مگر افسوس کہ یہ تسلیم ان کی زندگی میں وہ مقام نہ پا سکی جو ان کا حق تھا۔

بابا چلاسی (اصل نام: غلام النصیر چلاسی)، جو ضلع دیامر (چلاس) کے ایک عظیم روحانی رہنما، شاعر اور مفکرکے طور پر مشہور ہیں، نے اپنی زندگی میں امن، اتحاد اور انسانی اقدار کے پیغامات کو نہ صرف اپنی تقاریر اور اعمال سے پھیلایا بلکہ اپنے قلم سے بھی۔ ان کی تخلیقات کا زیادہ تر زور شاعری پر ہے، خاص طور پر فارسی، اردو، عربی، پشتو اور شینا زبانوں میں کتابیں لکھیں جہاں تک ان کی کتابوں کا تعلق ہے، بابا چلاسی کی تحریریں زیادہ تر ان کی شاعری کی مجموعوں اور روحانی کلام کی صورت میں دستیاب ہیں، جو ان کے علمی اور صوفیانہ ورثے کی عکاسی کرتی ہیں۔ ان کی کتابیں نصابی اداروں میں شامل کی گئیں، جو ان کی اہمیت کا ثبوت ہے، مگر ان کی تفصیلی فہرست محدود ذرائع میں ملتی ہے۔ ذیل میں ان کی اہم تخلیقات کا جائزہ پیش کیا جا رہا ہے، جو دستیاب معلومات کی بنیاد پر مرتب کیا گیا ہے۔

1۔ فارسی کلام (Persian Kalam)

یہ بابا چلاسی کی سب سے نمایاں تخلیق ہے، جو ان کے فارسی شاعری کا مجموعہ ہے۔ اس میں صوفیانہ موضوعات جیسے محبت الٰہی، زہد، صبر اور انسانی اتحاد پر غزلیں، مثنویاں اور رباعیات شامل ہیں۔ ان کی فارسی شاعری کی خصوصیت اس کی سادگی اور گہرائی ہے، جو فارسی ادب کی روایات (جیسے مولانا رومی یا حافظ کی طرز پر) کو مقامی ثقافت سے جوڑتی ہے۔ یہ کلام بابا چلاسی کے روحانی سفر کی جھلک دکھاتا ہے۔ ان کی اشعار کی تشریحات اور تراجم (جیسے شہباز احمد فریضی کی ویڈیو سیریز میں پتہ چلتا ہے کہ یہ نہ صرف ادبی بلکہ اخلاقی رہنمائی کا ذریعہ ہیں۔

1988 کے فرقہ وارانہ فسادات کے تناظر میں ان کی فارسی شاعری امن کا درس دیتی ہے، جہاں نفرت کے مقابلے میں محبت کو ہتھیار قرار دیا گیا ہے۔ یہ مجموعہ ہندی، اردو اور رومن رسم الخط میں دستیاب ہے، جو اسے وسیع سامعین تک پہنچاتا ہے۔ جائزہ لینے والوں کا خیال ہے کہ یہ کتاب صوفی ادب کی ایک نئی جہت کھولتی ہے، خاص طور پر پاکستان کے شمالی علاقوں کی مقامی بولیوں سے متاثر ہو کر۔

دستیابی: صوفی نامہ (Sufinama) جیسے پلیٹ فارمز پر آن لائن دستیاب۔

2۔ اردو، عربی، پشتو اور شینا شاعری کی مجموعے

تفصیل: بابا چلاسی چھ سے زائد زبانوں کے ماہر تھے اور ان کی شاعری ان زبانوں میں بکھری ہوئی ہے۔ الگ الگ کتابیں تو کم ہیں، مگر ان کے کلام کو "شعر نو" جیسی ویب سائٹس پر جمع کیا گیا ہے، جہاں موضوعات جیسے جدائی، موت، وقت اور عمر شامل ہیں۔ عربی اور فارسی میں روحانی غزلیں، جبکہ پشتو اور شینا میں مقامی لوک داستانوں سے متاثر اشعار ملتے ہیں۔

یہ مجموعے بابا چلاسی کی کثیر لسانی صلاحیت کو ظاہر کرتے ہیں، جو انہیں ایک عالمی شاعر بناتے ہیں۔ ان کی شاعری میں صبر کی مٹھاس اور محبت کی گہرائی جھلکتی ہے، جو 1988 کے سانحے جیسے حالات میں لوگوں کو متحد کرنے کا پیغام دیتی ہے۔ ناقدین کے مطابق، یہ اشعار مقامی ثقافت کی حفاظت کرتے ہوئے عالمگیر انسانی اقدار کو اجاگر کرتے ہیں۔ اسلام آباد کے نصابی اداروں میں ان کی کتب کو شامل کرنے کا اعلان ان کی تعلیمی قدر کو تسلیم کرتا ہے، جو نوجوان نسل کے لیے ایک رول ماڈل ہے۔ بابا چلاسی کی تقاریر اور مضامین کو بعض مجموعوں میں مرتب کیا گیا، جہاں امن، بھائی چارہ اور مسلکی رواداری پر زور دیا گیا ہے۔ ان کی کتابیں (یا مجموعے) میں"مختار سانحہ" جیسے واقعات کی روشنی میں لکھی گئیں تحریریں شامل ہیں، جو سازشوں کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں۔

یہ تحریریں محض ادبی نہیں بلکہ سماجی دستاویز ہیں۔ ان میں زہد کی سادگی اور انسانی تربیت کا درس ملتا ہے، جو آج بھی گلگت بلتستان جیسے علاقوں میں متعلقہ ہے۔ جائزہ لینے والوں کا کہنا ہے کہ یہ کتابیں معاشرتی آئینہ ہیں، جو بے حسی اور نفرت کو چیلنج کرتی ہیں۔ البتہ، ان کی اشاعت محدود ہونے کی وجہ سے وسیع پیمانے پر رسائی کا مسئلہ ہے، جو ان کے ورثے کی حفاظت کی ضرورت کو اجاگر کرتا ہے۔

بابا چلاسی کی کتابیں ان کے "محبتوں کا سفیر" کے لقب کی تکمیل کرتی ہیں یہ نہ صرف شاعرانہ خوبصورتی رکھتی ہیں بلکہ عملی زندگی کے لیے رہنمائی بھی فراہم کرتی ہیں۔ ان کی تحریروں کی سب سے بڑی خوبی ان کی کثیر لسانی نوعیت ہے، جو علاقائی اور عالمی سامعین کو جوڑتی ہے۔ مگر افسوس کہ ان کی کتابوں کی فہرست اور اشاعت کا فقدان ہے، جو مزید تحقیق کی دعوت دیتا ہے۔ نئے قارئین کے لیے "فارسی کلام" سے آغاز کریں، جو ان کی روحانی گہرائی کو سمجھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

اگر آپ ان کی کتابوں کو قومی نصاب میں شامل کرنے یا مزید تفصیلات چاہتے ہیں، تو مقامی ادبی اداروں یا صوفی فورمز سے رابطہ کریں۔ بابا چلاسی کا ورثہ زندہ رکھنے کے لیے ان کی تحریروں کو مقامی زبانوں میں ترجمہ کرنا ضروری ہے۔ اللہ ان کے عمل کو قبول فرمائے۔

بابا چلاسی کی رحلت صرف ایک فرد کا جانا نہیں، بلکہ ایک معاشرتی آئینہ ہے جو ہمیں ہماری بے حسی اور سستی کی یاد دہانی کراتا ہے۔ ان کی وفات کے ساتھ ہمارے دلوں میں ایک خلاء پیدا ہوا، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان کی زندگی میں ان کی قدر کر پائے؟ کیا ہم نے ان کے پیغام کو سمجھا اور اس پر عمل کیا؟ یہ وقت صرف ماتم کا نہیں، بلکہ عزم اور فیصلے کا ہے۔ ہمیں بابا چلاسی کے مشن کو زندہ رکھنا ہے۔ ان کی کتب، تقاریر اور پیغامات کو مقامی زبانوں میں عام کرنا ہوگا۔ اسکولوں، کالجوں اور مساجد میں ان کی زندگی اور خدمات کو نصاب کا حصہ بنانا ہوگا تاکہ ہماری نئی نسل اپنے اصل ہیروز کو جان سکے۔

بابا چلاسی نے اپنی زندگی میں امن، اتحاد اور محبت کا درس دیا۔ ان کی شاعری، ان کی کتابیں اور ان کی خاموش قربانیاں ہمیں سکھاتی ہیں کہ قومیں اپنی عادات بدل کر ہی ترقی کرتی ہیں۔ اگر ہم اس صدمے کو صرف غم تک محدود رکھیں گے تو تباہی کا سلسلہ جاری رہے گا۔ لیکن اگر ہم اس درد کو قوت بنائیں، تو بابا چلاسی کا مشن زندہ رہے گا۔ ہمیں عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنے علمی و روحانی اثاثوں کی قدر ان کی زندگی میں کریں گے۔

ہم اپنی بے حسی کو دور کریں گے اور اپنے شعور کو جگائیں گے۔

ہم ان لوگوں کو عزت دیں گے جو ہمارے مستقبل کو روشن کر سکتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ بابا چلاسی کو اپنی رحمتوں کے سائے میں جگہ عطا فرمائے، ان کے درجات بلند کرے اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق دے۔ آمین۔

بابا چلاسی ایک نیک، درویش صفت انسان تھے جنہوں نے اپنی زندگی کو خطے کی فلاح اور انسانیت کی خدمت کے لیے وقف کر دیا۔ ان کا پیغام ہمارے لیے ایک مشعل راہ ہے۔ آئیے، ہم سب مل کر ان کے ورثے کو زندہ رکھیں اور اس شرمناک حقیقت کو بدلیں کہ یہاں اچھا بننے کے لیے مرنا پڑتا ہے۔ ان کی یاد ہمیشہ ہمارے دلوں میں روشن رہے گی۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan