Asmani Afaten Tareekh Ke Jharokon Se Iqtibas
آسمانی آفتیں تاریخ کے جھروکوں سے اقتباس

خلیفہ ہارون الرشید عباسی خاندان کا پانچواں خلیفہ تھا عباسیوں نے طویل عرصے تک اسلامی دنیا پر حکومت کی لیکن ان میں سے شہرت صرف ہارون الرشید کو نصیب ہوئی۔ ہارون الرشید کے دور میں ایک بار بہت بڑا قحط پڑ گیا۔ اس قحط کے اثرات سمرقند سے لے کر بغداد تک اور کوفہ سے لے کر مراکش تک ظاہر ہونے لگے۔ ہارون الرشید نے اس قحط سے نمٹنے کیلئے تمام تدبیریں آزما لیں، اس نے غلے کے گودام کھول دئیے، ٹیکس معاف کر دئیے، پوری سلطنت میں سرکاری لنگر خانے قائم کر دئیے اور تمام امراء اور تاجروں کو متاثرین کی مدد کیلئے موبلائز کر دیا لیکن اس کے باوجود عوام کے حالات ٹھیک نہ ہوئے۔
ایک رات ہارون الرشید شدید ٹینشن میں تھا اسے نیند نہیں آ رہی تھی ٹینشن کے اس عالم میں اس نے اپنے وزیراعظم یحییٰ بن خالد کو طلب کیا یحییٰ بن خالد ہارون الرشید کااستاد بھی تھا۔ اس نے بچپن سے بادشاہ کی تربیت کی تھی۔ ہارون الرشید نے یحییٰ خالد سے کہا استاد محترم آپ مجھے کوئی ایسی کہانی کوئی ایسی داستان سنائیں جسے سن کر مجھے قرار آ جائے۔۔
یحییٰ بن خالد مسکرایا اور عرض کیا بادشاہ سلامت میں نے اللہ کے کسی نبی کی حیات طیبہ میں ایک داستان پڑھی تھی یہ داستان مقدر قسمت اور اللہ کی رضا کی سب سے بڑی اور شاندار تشریح ہے آپ اگر اجازت دیں تو میں وہ داستان آپ کے سامنے دہرا دوں بادشاہ نے بے چینی سے فرمایا۔ یا استاد فوراً فرمائیے میری جان حلق میں اٹک رہی ہے۔
یحییٰ خالد نے عرض کیا کسی جنگل میں ایک بندریا سفر کیلئے روانہ ہونے لگی، اس کا ایک بچہ تھا۔ وہ بچے کو ساتھ نہیں لے جا سکتی تھی چنانچہ وہ شیر کے پاس گئی اور اس سے عرض کیا جناب آپ جنگل کے بادشاہ ہیں میں سفر پر روانہ ہونے لگی ہوں میری خواہش ہے آپ میرے بچے کی حفاظت اپنے ذمے لے لیں شیر نے حامی بھر لی، بندریا نے اپنا بچہ شیر کے حوالے کر دیا شیر نے بچہ اپنے کندھے پر بٹھا لیا، بندریا سفر پر روانہ ہوگئی۔
اب شیر روزانہ بندر کے بچے کو کندھے پر بٹھاتا اور جنگل میں اپنے روزمرہ کے کام بھی کرتا اور بندرئے کے بچے کو سیر بھی کراتا۔ ایک دن شیر جنگل میں گھوم رہا تھا کہ اچانک آسمان سے ایک چیل نے ڈائی لگائی شیر کے قریب پہنچی بندریا کا بچہ اٹھایا اور آسمان میں گم ہوگئی شیر جنگل میں بھاگا دوڑا لیکن وہ چیل کو نہ پکڑ سکا، یحییٰ خالد رکا اس نے سانس لیا اور خلیفہ ہارون الرشید سے عرض کیا بادشاہ سلامت چند دن بعد بندریا واپس آئی اور شیر سے اپنے بچے کا مطالبہ کر دیا۔ شیر نے شرمندگی سے جواب دیا تمہارا بچہ تو چیل لے گئی ہے۔
بندریا کو غصہ آگیا اور اس نے چلا کر کہا تم کیسے بادشاہ ہو، تم ایک امانت کی حفاظت نہیں کر سکے تم اس سارے جنگل کا نظام کیسے چلاؤ گے شیر نے افسوس سے سر ہلایا اور بولا میں زمین کا بادشاہ ہوں اگر زمین سے کوئی آفت تمہارے بچے کی طرف بڑھتی تو میں اسے روک لیتا لیکن یہ آفت آسمان سے اتری تھی اور آسمان کی آفتیں صرف اور صرف آسمان والا روک سکتا ہے۔ میں آسمانی آفات کا مقابلہ نہیں کرسکتا میں پھر بھی معافی چاہتا ہوں کہ آپ کے بچے کی حفاظت نہ کرسکا۔
یہ کہانی سنانے کے بعد یحییٰ بن خالد نے ہارون الرشید سے عرض کیا بادشاہ سلامت قحط کی یہ آفت بھی اگر زمین سے نکلی ہوتی تو آپ اسے روک لیتے، یہ آسمان کا عذاب ہے اسے صرف اللہ تعالیٰ روک سکتا ہے چنانچہ آپ اسے رکوانے کیلئے بادشاہ نہ بنیں، فقیر بنیں یہ آفت رک جائے گی۔
دنیا میں آفتیں دو قسم کی ہوتی ہیں آسمانی مصیبتیں اور زمینی آفتیں۔ آسمانی آفت سے بچے کیلئے اللہ تعالیٰ کا راضی ہونا ضروری ہوتا ہے جبکہ زمینی آفت سے بچاؤ کیلئے انسانوں کا متحد ہونا وسائل کا بھر پور استعمال اور حکمرانوں کا اخلاص درکار ہوتا ہے۔
یحییٰ بن خالد نے ہارون الرشید کو کہا تھا بادشاہ سلامت آسمانی آفتیں اس وقت تک ختم نہیں ہوتیں جب تک انسان اپنے رب کو راضی نہیں کر لیتا، آپ اس آفت کامقابلہ بادشاہ بن کر نہیں کر سکیں گے چنانچہ آپ فقیر بن جائیے۔ اللہ کے حضور گر جائیے اس سے توبہ کیجئے اس سے مدد مانگیے۔
دنیا کے تمام مسائل اور ان کے حل کے درمیان صرف اتنا فاصلہ ہوتا ہے جتنا ماتھے اور جائے نماز میں ہوتا ہے لیکن افسوس ہم اپنے مسائل کے حل کیلئے سات سمندر پار تو جا سکتے ہیں لیکن ماتھے اور جائے نماز کے درمیان موجود چند انچ کا فاصلہ طے نہیں کر سکتے۔
ہمارا اور ہمارے حکمرانوں کا حال بھی کچھ اسی طرح کا ہے ہم خود اپنے گناہوں سے آفتوں کو دعوت دیکر شکوہ اللہ سے کرتے ہیں اپنے اعمال سیدھے نہیں کرتے گناہ پر گناہ کرتے جارہے ہیں مگر توبہ کی توفیق نہیں جب زمین پر کمزوروں پر ظلم ہو اور پھر یہ کمزور لوگ انصاف کے لئے جگہ جگہ در بدر ہوجائیں اور انہیں انصاف نہ۔ ملے تو قدرت اپنے غیب وغضب سے آفتوں کی شکل میں سب کو بے بس کرتی ہے نیز المیہ یہ ہے کہ ابھی آفت تھمنے کا نام۔ نہیں لے رہی ہے انسان مصیبت میں گرا ہوا ہے توبہ در کنار مزید نئے گناہوں میں غوط لگا رہا ہے اب یہاں قدرت طکی رف سے آفت عزاب نہ ملے تو اور کیا ملے گا۔
روئے زمین میں جب انصاف کے تقاضے پورے نہیں ہونگے تو آسمان سے آفتوں کا نزول تو ہوگا۔ یہ اللہ کا فیصلہ ہے جو ہو کر رہتا ہے۔ ان آفتوں کا مقابلہ اللہ کے سامنے گڑ گڑا کر اپنے گناہوں اپنے گندے کرتوت پر ندامت سے ہی ممکن ہے۔ جب تک ہمارے اعمال ٹھیک نہیں ہونگے اسوقت تک آفتیں مختلف شکلوں سے ہمارا پیچھا کرتی رہیں گی۔
ندامت کے دو آنسوں اور چشم تر
رب کو منانےکیلئے یہ عمل کافی ہے

