Amal Mein Jahalat Ho To Degriyan Kis Kam Ki
عمل میں جہالت ہو تو ڈگریاں کس کام کی

آج کا دور علم کی روشنی سے منور ہونے کے باوجود جہالت کے اندھیروں میں ڈوبا نظر آتا ہے۔ نفسا نفسی مفاد پرستی مال و دولت کی ہوس اور اقتدار کی بے لگام خواہش نے علم کی عظمت و وقار کو پامال کر دیا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے علم کی روشنی اور آزادی کے خواب سے ایک ایسی آزاد مملکت کی بنیاد رکھی تھی جو مسلمانوں کے لیے عزت و وقار کی علامت تھی انھوں نے اپنی جدوجہد سے امت مسلمہ پر احسان عظیم کیا مگر افسوس! آج اقتدار کے بھوکے، ننگے عزائم کے حامل افراد نے علم کے باوجود جہالت سے بھی بدتر راستہ اختیار کیا۔ انھوں نے اپنے ذاتی مفادات اور اقتدار کی خاطر اسرائیل کی قبولیت کو ترجیح دی جو قائد کی روح کو تڑپانے کے مترادف ہے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو اقتدار کی ہوس میں اندھے ہو کر مظلوموں کے زخموں پر نمک چھڑکتے ہیں۔ انھوں نے نہ صرف انسانیت کے قاتلوں، جیسے ٹرمپ۔ نیٹو یا دیگر کے ظالمانہ عزائم کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کی تقاریر کو براہ راست نشر کرکے مظلوموں کے دل میں خنجر گھونپا۔ یہ عمل نہ صرف قائد کے وژن کی توہین ہے بلکہ اس آزاد مملکت کے بنیادی اصولوں سے غداری ہے، جس کی بنیاد عدل، مساوات اور انسانیت پر رکھی گئی تھی۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے ضمیر کو جھنجھوڑیں قائد کے خواب کو زندہ رکھیں اور اس جہالت کے مقابلے میں علم کی روشنی کو پھر سے فروزاں کریں تاکہ پاکستان ایک بار پھر عزت و وقار کی بلندیوں کو چھو سکے۔
دنیا کی کہانی دراصل دو لفظوں کی کہانی ہے علم اور جہل۔
ایک لفظ ہے جو روشنی بن کر انسان کے اندر اترتا ہے اور دوسرا وہ جو اندھیرا بن کر انسان کے وجود کو نگل لیتا ہے۔ ایک انسان کو زمین سے آسمان تک لے جاتا ہے، دوسرا آسمان سے گرا کر زمین میں دفن کر دیتا ہے۔ یہی دو قوتیں ہیں جو انسان کے سفرِ شعور کا تعین کرتی ہیں۔
علم دراصل روشنی کا نام ہے ایک ایسی روشنی جو دیے سے دیے جلانے کا ہنر جانتی ہے۔ یہی وہ قوت ہے جس نے انسان کو غار سے نکال کر فلک پیما بنایا، جس نے مٹی سے تخلیق پائی مخلوق کو خالق کی نشانیاں سمجھنے کے قابل کیا۔
علم وہ قوت ہے جو انسان کو سجدے کے قابل بناتی ہے، کیونکہ جب فرشتوں نے آدم کو سجدہ کیا تو کسی حسن طاقت یا مال کے سبب نہیں بلکہ علم کے سبب۔ یہی وہ لمحہ تھا جب انسان کو مٹی سے معنی کی بلندی تک اٹھایا گیا مگر جب یہی انسان علم سے منہ موڑتا ہے تو وہ اپنے مرتبے سے گر کر محض ایک شور بن جاتا ہے ایسا شور جس میں عقل کا نغمہ نہیں بس جذبات کا شور و غوغا ہے۔
جہالت وہ دھند ہے جو دماغ کے سورج کو چھپا دیتی ہے۔ یہ وہ اندھیرا ہے جو علم کے اجالے کے سامنے کھڑا ہو کر خود کو روشنی کہلاتا ہے یہ وہ زہر ہے جو میٹھے الفاظ میں لپٹ کر نسلوں کے خون میں گھل جاتا ہے۔ جہالت صرف کتاب نہ پڑھنے کا نام نہیں یہ ایک رویے کا نام ہے جو سچ کو سمجھے ہوئے بھی آنکھین چراتا ہے یہ وہ کیفیت ہے جس میں انسان اپنے سوا سب کو غلط سمجھتا ہے۔ جہالت کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہ انسان کو یقینِ باطل دیتی ہے یعنی وہ شخص جسے کچھ نہیں معلوم وہ سب سے زیادہ پر اعتماد ہوتا ہے۔ یہی وہ اعتماد ہے جو قوموں کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے آج ہم ایک ایسے دور میں کھڑے ہیں جہاں علم موجود ہے مگر شعور غائب ہے۔
کتابیں چھپ رہی ہیں مگر قاری کم ہو گئے ہیں۔ ڈگریاں بڑھ گئیں مگر فہم کم ہوگیا بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ہم نے الفاظ تو سیکھ لیے۔ مگر معنی کھو دیے۔ یہ وہ جدید جہالت ہے جو لبادہ اوڑھ کر آتی ہے جو بولتی بھی ہے لکھتی بھی ہے، مگر سمجھتی کچھ نہیں۔ جہالت کے ہاتھ میں جب طاقت آ جاتی ہے تو وہ مذہب کو ہتھیار بناتی ہے اور علم کے ہاتھ میں جب قلم آتا ہے تو وہ مذہب کو معنی دیتا ہے۔
جہالت نعرہ بن جاتی ہے
اور علم سوال۔
نعرے ہجوم بناتے ہیں
سوال قومیں۔
علم انسان کو عاجز بناتا ہے
جہالت انسان کو متکبر
عاجزی میں ارتقا ہے
تکبر میں فنا۔
ہماری تاریخ بھی اس فلسفے کی زندہ تصویر ہے۔
جب اندلس میں چراغ علم روشن تھا تو یورپ جہالت کے اندھیروں میں گم تھا اور جب ہم نے علم کو چھوڑا، تو اندلس کے چراغ بجھ گئے اور یورپ نے ان کی روشنی چُرا کر اپنی راہیں روشن کر لیں۔
ہم مسجدوں کے مینار بلند کرتے رہے وہ کتابوں کی الماریاں بھرتے رہے۔
ہم نے منبر کو نعرے کا منبر بنا دیا
انہوں نے اسکول کو فہم کا منبر بنا دیا۔ آج بھی یہی جنگ جاری ہے۔
یہ جنگ بندوقوں کی نہیں بلکہ فکر اور فہم کی ہے۔
ایک طرف وہ لوگ ہیں جو سوال کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ جو سوال کرنے والے کو کافر قرار دیتے ہیں۔
یہی وہ مقام ہے جہاں علم رو دیتا ہے اور جہل جشن مناتا ہے۔
قومیں کتابوں سے نہیں مرتیں بلکہ جب وہ سوال کرنا چھوڑ دیتی ہیں تب ان کا زوال شروع ہوتا ہے۔
علم سوال ہے
جہالت جواب۔
اور اکثر اوقات جواب وہ زنجیر ہے جو سوال کی آزادی کو قید کر دیتا ہے۔ دنیا میں سب سے بڑا گناہ یہ ہے کہ انسان جاننے کے باوجود نہ سمجھے اور سب سے بڑی عبادت یہ کہ انسان نہ جانتے ہوئے بھی جاننے کی جستجو میں رہے۔
علم چراغ ہے جہل اندھیرا۔
چراغ بجھ جائے تو آنکھیں رہتی ہیں پر دیکھنے کی صلاحیت مر جاتی ہے آج علم عمل کے سامنے لاوارث بنا نظر آتا ہے علم ہے مگر عمل کہیں نہیں اللہ کہہ رہا ہے یہود و نصارا کبھی بھی تمہارے دوست نہیں بن سکتے مگر اقتدار کے بھوکے لوگوں نے اللہ کہ ایک نہ سنی انہی یہود نصاری کے ساتھ گھٹ جوڑ کر مظلوموں کے زخموں پر مرچ لگایا اقتدار کے یہ بھوکے اللہ کے بھی مجرم ہیں اور مظلوم مسلمانوں کے بھی۔

