Akhri Ijlas, Akhri Fareb
آخری اجلاس، آخری فریب

یہ گلگت بلتستان ہے، جہاں پہاڑوں کی چوٹیاں بادلوں سے سرگوشیاں کرتی ہیں جہاں دریا اپنی لے پر گیت گنگناتے ہیں اور جہاں ہوائیں آزادی کے قصے سناتی ہیں مگر افسوس یہ وہی خطہ ہے جہاں سیاست ایک بے رنگ تھیٹر ہے، جہاں نمائیندے گرگٹی رنگوں سے مزین ہیں اور تماشائی سادہ دل عوام، جو ہر بار ایک نئے وعدے کے جال میں پھنستے نظر آتے ہیں آخری کابینہ کا اجلاس ہوا تو دل نے سوچا شاید اس بار کوئی نئی صبح طلوع ہوگی۔ شاید بجلی کے بلب جلیں گے کالجوں کے دروازے کھلیں گے اور روزگار کے باغ لہلہائیں گے۔ مگر یہ تو وہی پرانا ڈراما تھا بس کرداروں کے چہرے بدلے تھے۔
طنز کے نئے منظر، وعدوں کے پرانے فریب اور عوام کی امیدوں کا ایک اور جنازہ۔ جب اقتدار کی کرسی کے پہئے چرمرانے لگتے ہیں جب طاقت کا سایہ ڈھلنے لگتا ہے تب ہمارے نمائندے پھر سے خوابوں کے نئے بازار سجاتے ہیں۔ کوئی کہتا ہے چودہ نئی تحصیلیں بنائیں گے، کوئی آواز لگاتا ہے صحت کارڈ بحال کر دیا اب خوشیاں مناؤ! اور عوام وہ پہلے ہی چودہ اضلاع کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ نئی تحصیلوں کا شور سن کر کوئی خوشی سے اچھلتا ہے تو کوئی سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ یہ نیا بوجھ کیسے سہا جائے؟
یہ وہی خطہ ہے جہاں نوجوان علم کی پیاس لیے دربدر ہیں مگر حکمران عیاشی کے جام چھلکاتے ہیں۔ نوّے فیصد بجٹ تنخواہوں، مراعات اور سرکاری شان و شوکت کی نذر ہوتا ہے۔ باقی دس فیصد؟ وہ عوام کو تماشائی بنانے کے لیے کافی ہے صبر کرو وہ کہتے ہیں ترقی بس دروازے پر دستک دینے والی ہے مگر کوئی پوچھے اگر ترقی صرف فائلوں میں سانس لیتی ہے اگر عوام صرف ووٹ کے دن یاد آتی ہے تو یہ حکومت کس کی ہے؟ عوام کی یا فائلوں کی؟
چلاس اور سکردو میں ایم آر آئی مشینیں دھول کھاتی ہیں مگر کابینہ میں پریزنٹیشنز کے رنگین چراغ جلتے ہیں۔ نوجوانوں کے ہاتھ خالی ہیں مگر وزراء کے ہاتھوں میں نئی گاڑیوں کی چابیاں چمکتی ہیں۔ گندم کی قیمتوں میں اضافے کی تیاری ہے اور اس ظلم کو اصلاحاتی پالیسی کا نام دیا جا رہا ہے۔ گویا عوام سے روٹی چھین کر اسے خدمت کا تسبیح پڑھایا جا رہا ہے۔ صحت کارڈ کی بحالی کا ڈھنڈورا بھی پیٹا گیا۔ جیسے زخموں پر خوشبو چھڑک کر کہا جائے دیکھو تم ٹھیک ہو گئے۔ بعض اوقات لگتا ہے کہ ہمارے نمائندے انسان نہیں اقتدار کی ہڈی کے پیچھے دوڑتے کتے ہیں۔ جو ہر نئی حکومت کے قدموں میں دم ہلاتے ہیں ان کی ترجیح گلگت بلتستان کی ترقی نہیں کرسی کا سایہ ہے۔ یہاں نہ کوئی انجینئرنگ کالج ہے نہ میڈیکل یونیورسٹی مگر ترقیاتی دعووں کے بورڈ ہر چوراہے پر جھلملاتے ہیں۔ یہ ہے ان کی ترقی جھوٹ کے بینر، وعدوں کے اشتہار اور حقیقت کی لاش۔
اگر عوام نے خاموشی کی چادر اوڑھ لی تو اگلا اجلاس بھی یہی طے کرے گا کہ کون سا نیا فریب بیچا جائے۔ مگر یاد رکھیں تاریخ کی عدالت خاموش نہیں۔ وہ ہر جھوٹ کا نوٹس لیتی ہے ہر فریب کا حساب مانگتی ہے حکومتیں تو گزر جاتی ہیں مگر ان کی بددیانتیوں کی گونج گلگت کے پہاڑوں میں کچھ دیر تک ضرور گونجتی رہتی ہیں یہ حکومت نہیں ایک منافع بخش کمپنی ہے جہاں گلبر جیسے نالائق، ان پڑھ اور خودغرض لوگ مسلط کیے گئے ہیں۔
یہ عوامی نمائندے نہیں کمپنی کے کمیشن پر خریدے ہوئے ایجنٹ ہیں جو وفاق اور کمپنی کی سہولت کاری میں مصروف ہیں۔ کچھ خونخوار وفادار اب بھی اگلے آرڈر کے منتظر ہیں کہ کس پارٹی کے جھنڈے تلے دم ہلانی ہے۔ اب وقت ہے کہ عوام جاگے۔ جب تک مخلص نمائندوں کا انتخاب نہیں ہوگا یہ کمپنی کے بندے اس خطے کے وسائل کو لوٹتے رہیں گے۔ اب دادا، نانا اور چاچا کی سیاست سے باہر نکلنے کا وقت آ گیا ہے۔ یہ زمین۔ یہ پہاڑ یہ دریا یہ سب عوام کے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا عوام اپنے حق کے لیے آواز اٹھائیں گے یا ایک اور فریب کے تماشے میں تالیاں بجائیں گے جب تک دل نہ جاگے یہ فریب چلتا رہے گا جب تک عوام نہ بولے یہ تھیٹر سجتا رہے گا۔

