Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Sheher e Ashob (2)

Sheher e Ashob (2)

شہر آشوب (2)

ابا کے جانے کے بعد وہ کون سا کام تھا جو اماں نے نہیں کیا۔ اماں اپنی ادھڑی کمر کے ساتھ گھر کا مرد بن گئی تھیں۔ نو سال کی عمر میں مرتضیٰ، اسکول سے واپسی کے بعد چار بجے شام سے بنارس کی کپڑا مارکیٹ میں پکوڑوں کا تھال لے کر بیٹھا کرتا تھا۔ بنارس اورنگی ٹاون میں بنارسی کپڑوں کی ایک دکان ابا کے جاننے والے کی تھی۔ صدیق چچا نے کمال مہربانی سے اپنی دکان کے تھڑے پر مرتضیٰ کے بیٹھنے کا انتظام کر دیا تھا۔ مرتضیٰ کے آدھے سے زیادہ پکوڑے تو وہی اپنے گاہکوں کے لیے خرید لیا کرتے تھے۔ کچھ عرصے بعد پکوڑے بنانے کی کل ذمہ داری میری ہوگئی۔ اماں، مرتضیٰ کو دکان چھوڑنے اور سات بجے وہاں سے واپس لینے جاتیں اور اس بیچ جانے کتنے دوسرے کام نپٹاتیں پھرتیں۔ مرتضیٰ وہیں تھڑے پر اپنے ساتھ اپنی کتابیں بھی رکھتا اور بیچ بیچ میں اپنا ہوم ورک مکمل کرتا۔ ہم دونوں بہن بھائی اپنے اپنے بچپن سے آنکھیں چرا کر ذمہ دار ہو چکے تھے۔ ہم گھر کی معیشت کے بھاڑ میں جھونکے گئے کہ پیٹ کا تنور جائز طریقوں سے بھرنا بڑا جوکھم۔

کسی کے روکے سے وقت کب رکا ہے۔ وہ کسی کے لیے سُستی تو کسی کے لیے تیزی سے گزر ہی جاتا ہے۔ ہمارا وقت بھی روتے کراتے بالآخر بدل ہی گیا۔ میں نے آئی کام کیا، محنت تو گھٹی میں پڑی ہی تھی سو مختلف نوکریاں کرتے کراتے پچھلے پانچ سالوں سے سائٹ ایریا میں ہوزری فیکڑی میں کام کر رہی ہوں۔ اب میں وہاں شفٹ انچارج ہوں۔ عزت بھی ہے اور تنخواہ بھی مناسب۔ محنت کی عادت اتنی راسخ کہ اماں کو آج بھی چین نہیں۔ اب اماں بلا معاوضہ بچیوں کو قرآن کی تعلیم دیتی ہیں۔ گھر کا آنگن انڈسٹریل ہوم بن گیا ہے جہاں کم عمر لڑکیاں امی سے امور خانہ داری سیکھنے آتی ہیں کہ امی جیسی غرارے کی تراش اور شاہی ٹکڑے اور بہاری کباب کا ثانی پورے اورنگی میں کوئی نہیں۔

مرتضیٰ کا ڈاؤ میڈیکل میں آخری سال ہے۔ اب اماں کی واحد پریشانی میری نا ہونے والی شادی ہے۔ ظاہر ہے انتیس سال کی غیر شادی شدہ بیٹی چھاتی پر K2 جیسا بوجھ ہی تھی۔ اماں تو گولٹا یعنی ادلے بدلے کی شادی پر تیار بیٹھی تھیں مگر میں، جس نے مرتضیٰ کو اپنے بچے کی طرح پالا تھا۔ اس کے رازوں کی امین تھی۔ مارے لحاظ کے مرتضیٰ نے مجھ سے کھل کر کبھی نہیں کہا مگر میں اس کی آنکھوں کے رنگ اور لہجے کی کھنک سے آشنا، جانتی ہوں کہ بسمہ اس کی کلاس فیلو اس کے دل کی مکین ہے۔ میں نے اماں سے صاف صاف کہ دیا کہ گولٹ شادی کا تو سوچیے گا بھی مت ورنہ میں اسی آنگن کے بیچ مٹی کا تیل چھڑک کر خود کو بھسم کر لوں گی۔ مجھے اماں کی پریشانی سے زیادہ دکھ مرتضیٰ کی فکروں کا تھا۔ میں دیکھ رہی تھی کہ میری شادی کی ٹینشن، مرتضیٰ میرے دلارے بھائی کی نیندیں اڑا رہی ہے۔ کاش اللہ انسان کو اتنا مجبور نہ بناتا۔

فیکٹری پہنچ کر میں تندہی سے کام میں مصروف ہوگئی۔ میری پوری کوشش تھی کہ اوور ٹائم نہ کرنا پڑے کہ گہری پڑتی شامیں مجھے ڈراتی تھی۔ دسمبر کا مہینہ ویسے بھی ہمارے گھر محرم کی طرح منایا جاتا ہے۔ ابھی تیرہ دن قبل ہی تو ابا کی برسی گزری تھی، پھر سقوط مشرقی پاکستان کا غم، نانا اور دونوں ماموں کی برسی۔ میں نے بتایا نا کہ دسمبر ہمارے یہاں محرم کی طرح اداس اور ویران گزرتا ہے۔

لنچ بریک پر رخشندہ نے سب کو اپنی منگنی کی میٹھائی کھلائی۔ سانولی سلونی رخشندہ کے چہرے پر دیپ جل رہے تھے۔ وہ مجھے بازو سے گھسیٹتے ہوئے ڈائنگ ہال کے آخری کونے پر لے گئی اور کہنے لگی، سن بے نظیر میرے جیٹھ کی شادی نہیں ہوئی ہے اور میری ساس اپنی بڑی بہو ڈھونڈھتی پھر رہی ہیں۔ اماں نے انہیں تمھارا بارے میں بتایا ہے۔ وہ بہت زیادہ دلچسپی لے رہی تھیں۔ اماں نے تمھارے گھر کا پتہ انہیں دے دیا ہے۔ شاید وہ ایک ادھ دن میں چھاپا ماریں۔

وہ ہے کیسا اور کیا کرتا ہے؟ میں نے جھجھکتے ہوئے پوچھا۔

ارے بھئی دونوں بھائیوں میں سے کوئی بھی شاہ رخ خان جیسا دلبر نہیں پر فکر نہ کر اکشے جیسا برا بوتھا بھی نہیں۔ بڑا بھائی بقائی میڈیکل لیب میں ٹیکنیشن ہے۔ دو ہی بھائی ہیں۔ اچھا ہے جو تو میری جیٹھانی بن جائے، اپن دونوں مزے کریں گے۔

مجھے خیالی پلاؤ پکاتی رخشندہ پر ہنسی آ گئی۔ چل بہن، میری ملا نصیرالدین کی نواسی لنچ بریک ختم ہوگیا اور آج کام بہت ہے۔

ابھی چھٹی میں تھوڑی دیر باقی ہی تھی کہ یہ وحشت ناک خبر ملی۔ لیاقت باغ میں بے نظیر بھٹو پر گولی چلا دی گئی تھی اور ساتھ ہی بم دھماکا بھی ہوا تھا۔ شہر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے اور جگہ جگہ جلاؤ گھیراؤ ہو رہا تھا۔ مینجمنٹ نے جلدی جلدی لڑکیوں سے کہا کہ وہ اپنی اپنی پوائنٹ کی بس پر بیٹھ جائیں۔ ہم سب افراتفری میں گرتے پڑتے اپنی اپنی بسوں میں بیٹھ گئے۔ سب کا ڈر سے برا حال تھا اور آیت الکرسی پڑھتے پڑھتے ہم لوگوں کے حلق خشک ہو رہے تھے۔ ہمارا بس ڈرائیور چچا کریم بہت ہشیار اور شریف النفس انسان تھا۔ اس کی موجودگی دل کو ڈھارس دے رہی تھی۔ وہ جانے کن گلیوں اور کوچوں میں بس کو پھراتے چل رہے تھے۔

ہم لوگ بمشکل تین ہٹی کے پاس پہنچے ہی تھے کہ سامنے سے ایک ہجوم آتا نظر آیا۔ چچا نے بس گھمانی چاہی مگر دیر ہوگئی تھی۔ ان لوگوں نے لوہے کے راڈ سے بس کے شیشے توڑنے شروع کر دئے۔ اسی اثنا میں چار پانچ غندے چلتی بس میں داخل ہوئے اور کریم چچا کو بس کے دروازے سے باہر پھینک دیا۔ ڈراوئنگ سیٹ پر ایک شخص قابض ہوگیا اور باقی چار لڑکیوں سے دست درازی کرنے لگے۔ یہ دیکھ کر بس کے پچھلے دروازے سے دو تین لڑکیاں کود کر باہر نکلی۔ میں نے بھی دروازے سے کودنا چاہا مگر کسی نے مجھے کمر سے پکڑ کر اندر گھسیٹ لیا۔ پھر۔۔ پھر مجھے ہوش نہیں رہا۔ کاش کہ میری بےہوشی دائمی ہوتی۔ کاش میں اسی پل مر جاتی، مار دی جاتی کاش۔۔ کاش۔۔

ستائیس دسمبر 2007 جب کراچی پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ تین دن تک، مسلسل تین دنوں تک کراچی جلتا رہا۔ کراچی کو لوٹا جاتا رہا۔ کراچی کی بیٹیوں سے بے نظیر بھٹو کے قتل کا بدلا لیا گیا۔ اس شام کراچی کی سڑکوں پر بنت حوا بے امان تھی، وہ لوٹ کا مال بنا دی گئی تھی۔

اورنگی قصبہ کے مکان نمبر 120 C پر ایک زخم خوردہ ماں کا اپنی بیٹی کی بخریت واپسی کا انتظار کرتے کرتے صدمے سے دل ہی بند ہوگیا اور اس کا بیٹا مرتضیٰ، اپنی بہن بے نظیر کی تلاش میں سرگرداں اس شہر آشوب میں جانے کہاں کھو گیا۔

صدیوں سے "پاٹلی پترا" میں بسا شمس الدین کا خاندان ہجرت کے پے در پے آزار سہتا ہوا 2007 میں مملکت خدا داد میں اپنے ہی مسلمان بھائیوں کے ہاتھوں فنا کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

Check Also

Final Call

By Umar Khan Jozvi