Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Phir Subah Nahi Hui

Phir Subah Nahi Hui

پھر صبح نہیں ہوئی

قومی اسمبلی کے اجلاس کی التواء کی خبر نے پاکستان کے مشرقی بازو پر قہر ڈھا دیا اور ڈھاکہ سمیت پورے مشرقی میں جلاؤ، گھیراؤ اور توڑ پھوڑ مچ گئی۔ فوج تو بیرکوں میں تھی سو اس غیض کا نشانہ بنے نہتے اور مظلوم غیر بنگالی یعنی بہاری۔ ان کی جان، مال، عزت، آبرو سب داؤ پر لگ گئی۔ اس صورت حال کا فائدہ اٹھایا چیف سیکرٹری شفیع الاعظم نے اور اس نے مارشل لاء حکام پر زور ڈالا کہ سول انتظامیہ چونکہ حالات کو قابو کرنے میں بےبس ہے لہٰذا اس ہنگامے پر قابو پانے کے لیے فوج کو کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لینا ہوگا۔

جوں ہی 2 مارچ کی شام کو کرفیو کا اعلان ہوا، عوامی لیگ نے اپنے کارکنوں کو کرفیو کی خلافت ورزی کرنے کے لیے میدان میں اتار دیا۔ عوام اور فوج کا تصادم ہوا اور چھ لوگ مارے گئے۔ 3 مارچ کو میڈفورڈ ہسپتال میں ایک سو پچپن زخمی داخل ہوئے۔ 4 مارچ کو آٹھ لوگ مارے گئے۔ صورت حال مزید خراب ہوئی۔ شیخ مجیب الرحمٰن کے غضب میں اضافہ ہوا اور اس نے یہ ضد پکڑ لی کہ فوج کو بیرک میں واپس بھیجا جائے۔ ناچار فوج نے اس کا حکم مانا اور عملاً مشرقی پاکستان میں فوج کے ہوتے ہوئے بھی شیخ مجیب کا قتدار قائم ہوگیا۔

غیر بنگالیوں میں عدم تحفظ کا احساس شدید ہوا اور لوگ ہر حال میں ڈھاکہ سے نکلنے کے لیے کوشاں ہوئے۔ اپنا سجا بنا گھر اور قیمتی گاڑیاں تک جہاز کی ٹکٹ کے بدلے دینے لگے اور تن کے کپڑوں کے ساتھ کراچی اور لاہور کے لیے نکلنے لگے۔ ہوائی جہاز کی ٹکٹ بلیک میں مل رہی تھی اور ٹکٹ کے انتظار میں لوگ ہفتوں ائیرپورٹ پر پڑے رہتے تھے۔ پر یہ تو گنے چنے لوگ تھے اور ان میں بھی اکثریت مغربی پاکستانیوں کی تھی۔ مشرقی پاکستان میں بہاریوں کی کثیر تعداد یکدم پل پل بدلتی صورتحال سے خائف اسی رزم گاہ میں موجود تھی اور ان کا کوئی بھی پرسان حال نہ تھا۔

صورت حال انتہائی کشیدہ تھی۔ 7 مارچ بروز منگل پلٹن میدان میں عظیم الشان جلسا تھا اور گمان غالب تھا کہ شیخ مجیب اس شام بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان کر دیں گے۔ اسکول کالج تو بند ہی تھے، پاپا بھی دکان پر نہیں جا رہے تھے کہ سیکنڈ کیپیٹل پر عوامی لیگ کے کارکنوں کا ناکہ تھا اور وہ بہت تنگ کرتے تھے۔ اس دن گھر کے تینوں نوکر سوائے یاسین کے اجازت لے کر جلسے میں شرکت کرنے پلٹن میدان چلے گئے۔

شروع میں تو ٹی وی پر جلسے کی تقریب دکھائی جاتی رہی مگر مجیب کی آمد سے پہلے ہی ٹی وی ٹرانسمیشن بند ہوگئی۔ پلٹن میدان میں لوگوں کا سمندر تھا جو ہاتھوں میں لاٹھیاں، بانس اور سریے اٹھائے ہوئے تھے۔ حد نگاہ تک سر ہی سر تھا۔ شکر کہ مجیب نے آزادی کا اعلان نہیں کیا بلکہ اپنی چاروں شرائط یعنی

1۔ مارشل لا اٹھا لیا جائے۔

2۔ عوامی نمائندوں کو اقتدار کی منتقلی۔

3۔ فوج کی بیرکوں میں مکمل واپسی۔

4۔ اور عوام اور عوامی لیگ کے کارکنوں کی حالیہ ہلاکتوں کی عدالتی تحقیقات پر زور دیا۔

جہاں بنگالی عوام آزادی کے اعلان نہ ہونے پر آزردہ تھے وہیں بہاریوں نے سکھ اور سکون کی سانس بھری تھی مگر وہ یہ بھول گئے تھے یا شاید قصداً بھولنا چاہتے تھے کہ یہ محض بلی اور چوہے کا کھیل تھا۔ ان تاریک دنوں میں امید کی کرن بن کر 15 مارچ کو صدر یحییٰ خان ڈھاکہ پہنچے اور ان کے پیچھے پیچھے اکیس مارچ کو بھٹو بھی ڈھاکہ آ گئے۔ مشرقی پاکستانیوں کے دلوں میں امید کی شمع بھڑک اٹھی اور ہر آدمی دعا گو تھا کہ مذاکرات کامیاب ہوں۔

امید و یاس کے انہیں دنوں میں 23 مارچ یعنی یوم پاکستان آ گیا۔ یہ وہ دن تھا جب پورا ڈھاکہ سبز پوش ہو جاتا تھا اور ہر عمارت اور گلی کوچہ سبز ہلالی پرچموں سے سج جاتا مگر اس سال عوامی لیگ کا حکم تھا کہ گھروں پر بنگلہ دیش کا پرچم یا پھر سیاہ پرچم لہرایا جائے۔ پاکستان کا پرچم کہیں نظر نہیں آنا چاہیے۔ جس گھر پر بھی پاکستانی پرچم لہرایا جائے گا وہ گھر مارک کر لیا جائے گا۔ تئیس مارچ کو عوامی لیگ نے یوم مزاحمت کے طور پر منایا تھا۔

اسی صبح شیخ مجیب کے گھر پر آزاد بنگلہ دیش کا پرچم لہرایا گیا اور شیخ مجیب نے پرچم کو سلامی دی تھی۔ پورے ڈھاکہ میں شاید محمد پور اور میر پور ہی وہ جگہیں تھیں جہاں کسی کسی مکان پر پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا ورنہ اس دن بیشتر چھتیں سونی تھیں۔ پچیس مارچ کا دن بظاہر عام سا دن تھا۔ وہ جمعرات کا دن تھا اور فضا میں موجود بے چینی واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔

رات نو بجے معمول کے مطابق کھانا کھایا گیا۔ کام سمیٹنے کے بعد نوکر اپنے کواٹر میں جا چکے تھے۔ ہم تینوں بہنیں بھی اپنے کمرے میں تھیں۔ جانے کس وقت اچانک دھماکے کی آواز پر میری آنکھیں کھلی تو آپا اور زرین کا بستر خالی تھا۔ بھاگ کر کمرے سے باہر آئے اور امی کے کمرے میں گئے تو دیکھا کہ امی، آپا اور زرین بستر پر خاموشی سے بیٹھی ہوئی ہیں۔ پاپا نظر نہیں آئے، پوچھنے پر آپا نے اشارے سے بتایا۔ جلدی سے جا کر دیکھا تو پاپا دیوار کی آڑ میں کمبل لپیٹے، بندوق لیے بیٹھے ہیں۔ ہمیں دیکھا اور اشارے سے اندر جانے کہا۔

ساری رات گولا بارود اور گولیوں کی آوازیں آتی رہیں اور ہر طرف آگ کے نارنجی شعلے آسمانوں سے باتیں کر رہے تھے اور دور سے لوگوں کی چیخ و پکار کی آواز ہوا کے دوش پر کانوں میں خراش اور دل میں درد کی ٹیس اٹھاتی تھی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو رہا ہے؟ ہم سب ساری رات جاگتے رہے۔ نورو بھی سرونٹ کوارٹر سے آ گیا تھا۔ امی نے اس سے چائے بنانے کا کہا اور امی پاپا نے چائے پی۔ فجر کے قریب پاپا اندر کمرے میں آ گئے۔ صبح پتہ چلا کہ یہ آرمی آپریشن تھا اور فوج نے شیخ مجیب کو گرفتار کر لیا ہے۔ ہم لوگوں نے کھل کر اطمینان کی سانس لی اور اب میرے چاروں نوکروں کے چہرے دہشت سے پیلے تھے۔

آپریشن سرچ لائٹ۔

رات کو تقریباً ساڑھے گیارہ بجے پہلا دھماکہ سنائی دیا تھا۔ فوج نے باغیوں کے خلاف ایکشن لیا جو آپریشن سرچ لائٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس رات شیخ مجیب الرحمٰن کو پاکستانی کمانڈوز جس کی قیادت میں کمانڈنگ آفیسر لیفٹیننٹ کرنل زیڈ اے خان اور کمپنی کمانڈر میجر بلال کر رہے تھے، شیخ مجیب کو اس کے گھر سے گرفتار کر لیا تھا۔ اس رات کے ہنگامے اور قتل و غارتگری کے بعد ڈھاکہ میں بظاہر امن ہوگیا مگر اندرون مشرقی پاکستان میں حالات بد سے بدتر ہوتے چلے گئے۔ عوامی لیگ کے کارکنوں نے ڈھاکہ اور دوسرے شہروں سے بھاگتے ہوئے، چھوٹے شہروں میں غیر بنگالیوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ دیا۔

سرحد پار کرتے ہوئے، آپریشن سرچ لائٹ کا بھر پور بدلہ انہوں نے بہاریوں سے لیا اور سفاکی اور بربریت کی نئی داستان رقم کر دی۔ نہ جان کی امان تھی اور نہ ہی حرمت کا پاس۔ محب وطن بنگالی اور غیر بنگالیوں کی اکثریت بری طرح روندی اور پامال کی گئی۔ ڈھاکہ اور دیگر شہروں سے عوامی لیگ کے کارکنوں اور بنگالی جوانوں نے گاؤں اور پھر وہاں سے پاکستان کی سرحد پار کی اور ہندوستان چلے گئے۔ جہاں ان کی خوب پذیرائی کی گئی اور عسکری تربیت دی گئی۔ پھر مکتی باہنی اور انڈر کور انڈین فورس نے مل کر مشرقی پاکستان کے چھوٹے شہروں قیامت صغریٰ برپا کر دی۔

پاکستانی فوج اپنی کم نفری کی بنا پر بغاوت کو مکمل طور پر کچلنے میں ناکام رہی۔ اندرون مشرقی پاکستان حالات بد سے بدتر ہوتے گئے اور وہاں سے لٹے پٹے خانماں برباد لوگوں نے ڈھاکہ کا رخ کیا۔ ڈھاکہ کے عارضی کیمپس زخمیوں اور ستم رسیدہ لوگوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے تھے۔ مشرقی پاکستان کے چھوٹے شہروں میں موت رقصاں تھی اور ڈھاکہ پر بھی دہشت اور بے یقینی کا سایہ تھا۔ روزمرہ زندگی بری طرح مفلوج تھی۔

Check Also

Qasoor To Hamara Hai?

By Javed Ayaz Khan