Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Shaheen Kamal
  4. Mutaharrik Saaye (1)

Mutaharrik Saaye (1)

متحرک سائے(1)

بیشتر لوگ بڑھاپے کی تنہائی سے خوفزدہ رہتے ہیں جبکہ بڑھاپے کی انجم آرائی الگ ہی ہے۔ فارغ وقت، زندگی کے ہر گوشے میں فراخ دلی سے جھانکنے کی سہولت فراہم کرتا ہے کہ کسی نے آنا نہیں اور ہم نے کہیں جانا نہیں گویانہ سوال وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں، سکون کے ساتھ چائے کی چسکی لیتے ہوئے گزرتے وقت کی چاپ سننتے رہو گویا کہ اس عمر میں ظاہری سماعت متاثر ہوچکی ہوتی ہے، مگر باطن کی آنکھیں نابینا ہونے کہ سبب پانچویں جہت و سمت کلی طور پر عیاں۔

اب جب کہ میں زندگی کے سارے میلے اور جھمیلے دیکھ اور نمٹا چکا ہوں تو میری تنہائی بڑی آباد ہے۔ میں ہمیشہ سے کتابوں کا رسیا رہا ہوں، پر جو خدا لگتی کہوں تو مجھے کتابوں سے زیادہ دلچسپ اب اپنی زندگی لگتی ہے۔ مجھے اپنی زندگی ایسے محفوظ کرتی ہے جیسے بچوں کو kaleidoscopeمیری بیتے کل کے لاتعداد کردار جن کو میں نے اس سمے سرسری جانا یا جو مشینی زندگی کی بھاگ دوڑ اور خوابوں اور آسائشوں کے حصول کی تگ و دو میں آنکھوں سے اوجھل ہو گئے تھے وہ سب میرے ارد گرد گھیرا ڈال کر بیٹھ جاتے ہیں۔

ایک چوپال سی سج جاتی ہے، جہاں باتوں کی بھنبناہٹ، جلتی انگیٹھی کا دھواں اور ڈھول پر پڑتی تھاپ ایک سماں باندھ دیتی ہے۔ ہر کردار آگے بڑھ کر اپنا تعارف کراتا ہے اور ہمکتا ہوا پوچھتا ہے۔ میں یاد ہوں نا!میں یاد ہوں نا!بھلا مجھے کیسے بھول سکتے ہو تم!اور واقعی سمے کی دھارا میں وہ بسرا پل جیتا جاگتا متحرک ہوجاتا ہے۔ بہت پرانی یاد جو اس وقت مجھے سہما گئی تھی پر آج رلا گئی ہے۔ میں اپنے کالج کے بس اسٹاپ پر اتر کر ایک شارٹ کٹ لیا کرتا تھا جو وسیع میدان کے بیچو بیچ سے گزرتی پگڈنڈی پر مشتمل تھا۔

اس سر سبز میدان میں خانہ بدشوں نے پڑاؤ ڈال رکھا تھا اور میں ہر روز صبح سویرے وہاں سے گزرا کرتا۔ وہ ایک دھند بھری سرد ترین صبح تھی اور کوئٹہ ونڈ کی کٹیلی برفیلی ہوائیں جسم کو کاٹتی گزر رہی تھیں کہ میرا اکلوتا گرمائش کھو چکا ہوا سوئیٹر تند ہواؤں سے مقابلے کے لیے قطعی ناکافی تھا۔ ابھی میں نے آدھا میدان ہی طے کیا تھا کہ سامنے سے ایک ہیولا میری طرف آتا دکھائی دیا۔ بالشت بھر کے فاصلے پہ جب میری نظریں اس پر پڑی تو ایک بےساختہ چیخ میرے منہ سے نکلی۔ اس سے زیادہ بھیانک چہرہ میں نے آج تک یعنی اپنی چوہتر سالہ زندگی میں نہیں دیکھا تھا۔

وہ کوئی جوان لڑکی تھی اور اس کا چہرہ بری طرح جلا ہوا تھا۔ اس چہرے کی دہشت عرصے تک میرے دل پر قائم رہی اور میں نے دل ہی دل میں اس کو پچھل پیری کی عرفیت دے رکھی تھی۔ آج اس کی یاد دل کو بوجھل کرتی ہے۔ جانے وہ کسی کے ظلم کا شکار ہوئی یا کوئی سنگین حادثہ اسے سوختہ کر گیا؟ اب اس لمحے کی یاد مجھے اذیت سے دو چار کرتی ہے کہ میری اس چیخ سے اس کے دل پر کیا بیتی ہو گی۔ میری وہ بےساختہ چیخ آج میرے سینے میں میخ بن کر گڑ گئی ہے۔

بچپن کا ایک مہجور کردار۔ بڑی آپا کی نئی نئی شادی ہوئی تھی اور غالباً ان کی شادی کے بعد پہلا شب برات تھا سو امی نے قسم قسم کے حلوے، نمک پارے اور شکر پارے تیار کیے اور چٹائی کی ٹوکری میں سارا سامان بھر کر ابا، امی اور میں خوشی خوشی رکشہ میں ٹھنس ٹھنسا کر بڑی آپا کے سسرال پہنچے۔ ان کے گھر پہنچے تو گھر میں گھستے ہی عجیب تناؤ کی فضا محسوس ہوئی۔ بڑی آپا خاموشی سے آکر ہم لوگوں کے ساتھ بیٹھ گئی۔ بیٹھک سے ملحقہ کمرے سے اونچی آواز میں کوئی مستقل کسی کو جھڑک رہا تھا اور اڑتے پردے کے پار سے نظر آتا منظر خاصا دل خراش تھا۔

بڑی آپا کے سسر کمرے میں یکساں رفتار سے ٹہلتے ہوئے بری طرح اپنی بیگم پر گرجتے ہوئے ان کے میکے کی عزت افزائی کے من پسند مشغلے میں مصروف تھے اور بڑی آپا کی ساس کسی مجرم کی طرح سر جھکائے پلنگ کے سرہانے بیٹھی وقفے وقفے سے اپنی ساڑھی کے آنچل سے آنسو پونچھتی نظرآئیں۔ بڑی آپا کے سسر نہ ہم لوگوں سے ملنے آئے اور نہ ہی اپنی دشنام طرازیوں میں کسی قسم کے وقفے کی زحمت گوارا کی۔ ہم تینوں شرمندگی کے عالم میں بڑی آپا کو خدا حافظ کہہ کر کمرے سے نکل گئے۔ بیرونی دروازے سے باہر نکلتے ہوئے امی نے ابرو کے اشارے سے بڑی آپا سے پوچھا ہوا کیا ہے؟

بڑی آپا نے دھیمی آواز میں جواب دیا کہ سالن میں نمک تیز ہو گیا تھا۔ میں دنگ رہ گیا کہ اتنی معمولی بات پر یہ صاحب اس قدر برافروختہ ہیں!اس حد تک آپے سے باہر کہ گھر آئے مہمان اور خاص طور پر نئے سمدھیانے کا بھی خیال نہیں رکھا اور نئ بہو کے سامنے ساس کو بے عزت کر دیا!!! تف ہے ایسے کم ظرف پر۔ یوں بھی مجھے بڑی آپا کی ساس بہت اچھی لگتی تھیں، لمبی چھریری، خوش جمال و خوبی گفتار سے آراستہ۔

پرانے وضع کی خاتون جو ابھی تک ساڑھی کا الٹا آنچل لیا کرتیں اور جن کے لے کھلا سر ابھی بھی گناہ کبیرا میں شمار ہوتا تھا۔ ان کے کانوں میں سونے کی ہلکی سی گول بالیاں اور لبوں پر پان کا لاکھا بہت سجتا تھا۔ بڑی آپا کے رشتے کے سلسلے میں جتنی بار آئیں تھیں ہمیشہ بہت محبت سے میرے سر پر دست شفقت پھیر کر سلام کا جواب دیتی اور ایک آدھ جملے میں حال احوال لیتی۔ ان کے مقابلے میں ان کے شوہر ان کے ساتھ بالکل نہیں جچتے تھے، نہ سراپے سے نہ ہی مزاج سے، عجیب لقندرے جیسے۔

پتہ نہیں ماں باپ اتنی بے جوڑ شادی کیوں کر دیتے ہیں؟ جانے کیوں اپنے جگر کا ٹکڑا ایسے ناقدروں کے حوالے کر کےانہیں تا زیست مصلوب کیوں کر دیتے ہیں؟ اس دن کے بعد سے تو میں دولہا بھائی کی جانب سے بھی کھٹک گیا تھا اور ابا کے ماتھے پر بھی تفکر کی گہری لکیر تھی پر صد شکر کہ بڑی آپا کو کبھی دولہا بھائی کے ہاتھوں اس بد صورت رویئے کا دکھ نہیں سہنا پڑا۔ میں نے تو اسی پل طے کر لیا تھا کہ میں اپنی بیوی کو کبھی بھی اس طرح ذلیل نہیں کروں گا۔ قسمت سے مجھے بیوی بڑی نیک اور بھاگوان ملی۔

بشریٰ میری زندگی میں بشارتوں کی نوید تھی اور زندگی کا کٹھن سفر ہم دونوں نے ایک دوسرے کی سنگت میں اچھا گزار لیا۔ بس میرے دل کو شل اس کے آخری ایام میں بیماری کے ہاتھوں اٹھائی گئی اس کی تکالیف کر دیتی ہیں۔ کیا بے بسی سی بےبسی کہ آپ چاہتے ہوئے بھی اپنے پیارے کی تکلیف کو دور کرنا تو بہت بڑی بات اس درد میں رتی بھر کمی لانے پر قادر نہیں، ماسوائے اس کے کہ اس قادر مطلق کے آگے سر بہ سجود ہو جائیں پر کبھی کبھی وہ بےنیاز کسی مصلحت کے تحت بےنیاز ہی رہتا ہے اور ساری محروم مستجاب دعائیں بلکتی ہوئی توشہ آخرت کر دی جاتی ہیں۔

نیشنل لیاقت اسپتال میں رفیق جاں کے آخری ایام میری زندگی کے بھیانک ترین دن اور نہایت تکلیف دہ یادیں ہیں۔ میں سوائے اس کا ہاتھ پکڑ کر بیٹھنے رہنے یا سر سہلانے کے علاوہ اس کا اور کوئی درد نہ بٹا سکا۔ جب وہ تھوڑی دیر کے لیے دواؤں کے زیرِ اثر سو جاتی تو جائے نماز کی سجدہ گاہ میرے آنسوؤں سے تر ہو جاتی، پر میرے پچھلے پہر کے کئے گئے سجدے بھی میرے دل کو آباد نہ کرسکے اور میری گریاں و زاریاں بھی ہونی کو نہ ٹال سکیں۔

بشریٰ کے سامنے تو میں اس کا آئرن مین بنا رہتا کہ میری مضبوطی ہی اس کا سہارا تھی، پر اندرو اندر ہی میں ریت کی دیوار کی مانند ڈھ چکا تھا۔ میں نے تو اس کی پلنگ کے گرد سات سات پھیرے لگا کر اس کی موت اپنے نام منتقل کرانے کی عرضی بھی برابر ڈالتا رہتا تھا، پر جانے میری نیت میں کھوٹ تھا یا شاید میری آزمائش مقصود تھی کہ میری عرضی مسترد کر دی گئی۔ تقدیر سے کون جیتا ہے آج تک؟ میں بھی تل تل جیتا اور کلستا ہوں۔ بس اب ایک ہی بات باعثِ اطمینان ہے کہ وہ تکلیفوں سے مکت ہو گئی۔

اس کو انجیکشن سے بہت ڈر لگتا تھا اور ظالموں نے سوئی بھونک بھونک کر میری من موہنی کا کومل جسم چھلنی کر دیا تھا۔ میں سارا سارا دن نرمی سے اس کے ہاتھوں کا مساج کرتا یا پھر اس کی سوجی نیل زدہ رگوں پر برف کی ٹکور۔ دنیا کی سب سے بڑی اذیت اپنی محبوب ہستی کو اپنے سامنے سسکتے مرتے دیکھنا ہے، مر تو آپ بھی اس کے ساتھ ہی جاتے ہیں بس سانسیں چلتی رہتی ہیں۔

جاری ہے۔۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo