Main Usama Hoon (1)
میں اسامہ ہوں (1)
میں فگار دل و مضروب جبڑے کے ساتھ ولید کا ہاتھ پکڑے کراچی ائرپورٹ پر گم سم کھڑا تھا۔ یہ میری جائے پیدائش ہے مگر شاید اب ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے انجان ہیں کہ پچیس سال بعد لوٹنے والے بیٹے سے یہ دھرتی ماں ناآشنا لگتی ہے۔ ایسا نہیں کہ میرا اس شہر میں کوئی نہیں۔ میرا پورا ددھیال ہی یہاں فروکش ہے پر وہ میرے نہیں اور میں بھی اپنی اس شناخت پہ شرمندہ۔
میں جب چھ سات سال کا تھا تو میری ماں نے بڑی دل گرفتگی اور افراتفری کے عالم یہ پرسکون شہر چھوڑا کیوں کہ میرا باپ pedophile تھا اور اماں مجھے اس کے سائے سے بھی بچانا چاہتی تھی۔ آج بھی وہ آخری اذیت بھرے ایام مٹے مٹے سے میری یادداشت میں میری برداشت کا امتحان لیتے ہیں۔ شکاگو میں ہم ماں بیٹے نے بہت مشکل دن کاٹے۔ ماں کمانے کے چکر میں گھن چکر بن گئی۔ فلیٹ کا کرایا اور دو وقت کی روٹی کی مشقت نے اس کو ایسا جکڑا کہ مجھ پر بیتی کو وہ محسوس ہی نہیں کر سکی۔
جب میں بارہ سال کا تھا تو اسکول سے اسے کال آئی کہ میں باتھ روم میں بھری ہوئی سگریٹ پیتا ہوا پکڑا گیا ہوں۔ میں صرف خود ہی نہیں پیتا تھا بلکہ سپلائی بھی کرتا تھا۔ اس خبر نے ماں کے وجود کو زلزلے سے تباہ شدہ عمارت بنا دیا کہ وہ پہلے ہی اپنی بیماری اور کمائی کی چکی کے دونوں پاٹوں کے درمیان پس رہی تھی۔ میری اس کارگزاری نے اس کو بالکل ہی توڑ نچوڑ دیا تھا، پھر وہ فقط تین سال ہی زندہ رہی۔ میں اپنی پندرہویں سالگِرہ پر اس دنیا کا اکیلا ترین انسان تھا۔
میں مستقل rehab اور فوسٹر ہوم کے درمیان چکراتا رہا اور آخر کار سترہ سال کی عمر میں جیل جا پہنچا۔ کیوں؟ اسی خبیث بڈھے ہینری کو قتل کرنے کی پاداش میں مگر اس کی بد قسمتی اور میری خوش نصیبی کہ وہ بچ گیا۔ اب یہ الگ بات کے ہسپتال سے فارغ ہو کر وہ اپنی زندگی کے بقیہ سال مہینے جیل ہی میں بسر کرے گا کہ مجھے نشہ کی لت پہ لگانے والا ہینری ہی تھا۔ میرا کیس کیا عدالت پہنچا، کہ کئی اپنے کیفرکردار کو پہنچے۔ ہینری کے ساتھ ہی کولنز بھی اسیر ہوا کہ اس نے مجھے ہائی اسکول میں bullyکر کے ریپ کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ وہ اندوہناک حادثہ ہے جس سے میں آج تک نہیں سنبھل سکا۔
ماں معاش کی جدوجہد میں سرگرداں تھی اور ہمارے معاشی حالات افٹر اسکول پروگرام کی فیس کے متحمل نہیں تھے۔ ایسے وقت میں ستر سالہ ہینری جو ہمارا پڑوسی تھا آگے آیا اور بولا فکر نہ کرو میں اس پر نظر رکھ لوں گا۔ میں اس وقت نو سال کا تھا۔ اسکول سے گھر آتا، فریج سے رات کا ٹھنڈا سالن نکال کر بریڈ یا چاول کے ساتھ کھاتا۔ ہینری نے مائکرو ویو میں کھانا گرم کرنے کی پیشکش کی اور اس طرح اس کے اپارٹمنٹ میں آنا جانا شروع ہوا۔ اس کا بڑی اسکرین والا رنگین ٹی۔ وی میری کمزوری بنتا چلا گیا اور شام میں اپارٹمنٹ بلڈنگ کے احاطے میں بنے چھوٹے سے پلے ایریا میں کھیلنے کے بعد ماں کے آنے تک کا سارا وقت اس کے گھر ٹی وی پر اسپورٹس چینل دیکھتے گزرتا۔ چھ آٹھ مہینے تو سب ٹھیک چلتا رہا۔ ماں بھی احسان مندی کے طور پر اسے اتوار کو لنچ پر مدعو کرنے لگی۔
ہینری شام سے رات تک بیر کے کئی کین چڑھا جاتا تھا۔ ایک دن اسے جانے کیا سوجھی کہ مجھے بھی ایک کین پکڑا دیا، میں بمشکل دو گھونٹ ہی لے پایا مگر یہ نقطہ آغاز تھا۔ بیر سے شراب اور پھر کوکین، کیا کچھ نہیں تھا اس سفر میں۔ ماں ان دنوں امیگریشن کے مسائل میں بری طرح الجھی ہوئی تھی کہ ہمارے امیگریشن وکیل پر جعلی امیگریشن کا کیس ثابت ہو گیا تھا اور اس وجہ سے اس کے جتنے بھی کلائنٹ تھے سب کے سب ریڈار تلے آ گئے تھے، سو اب سب ہی کا کیس لمبا کھچنے والا تھا۔
میں ہمیشہ کا کم گو اور اپنی ذات میں گم رہنے والا بیبا بچہ تھا اور یوں بھی ماں اور میرا آمنا سامنا بمشکل گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کا ہی ہوتا اور یہ مختصر وقت پکاتے، کھاتے اور برتن دھوتے گزر جاتا۔ میرے نشے کی مقدار تھوڑی ہی ہوا کرتی تھی مگر یہ زہر میرے رگوں میں اتر چکا تھا۔ بارہ سال کی عمر چرس اور کوکین سے آشنائی ہوئی اور اسکول سے نکالا گیا۔ جن کالوں کے محلے میں ہم لوگ رہتے تھے وہاں یہ عام سی بات تھی۔ ماں نے مناسب ماحول کی خاطر بڑی جتن سے اپارٹمنٹ بدل لیا اور ہم لوگ قدرے بہتر علاقے میں آ گئے پر اس چلتے بچت صفر ہو گئی، سو ماں دوسرا امیگریشن وکیل نہ کر سکی۔ صحت اس کی ویسے ہی بالکل ختم تھی، وہ لیگل تو تھی نہیں کہ ہسپتال جا سکتی، بس درد کش دواؤں کے سہارے درد کو بھگتی اور جھیلتی رہی۔
مجھے ریہب میں داخل کیا گیا اور میں خاصا بہتر ہو گیا مگر ماں کی زندگی نے وفا نہ کی اور اتنے بڑے شہر میں میرا ماں کے سوا دوسرا کوئی نہ تھا۔ ماں کے انتقال پر 911 کال کیا پولیس آئی اور گھر کی ابتری دیکھ کر کسی شبہے میں مبتلا ہوئے بغیر ضروری کارروائی کے بعد ماں کی ڈیڈ بوڈی ریلیز کر دی، بھلا ہو مسجد والوں کا کہ ان کی وجہ سے ماں کی تدفین ممکن ہو گئی۔ حکومت نے مجھے فوسٹر کیر کے حوالے کیا مگر میں پندرہ دن بعد ہی وہاں سے بھاگ کر ہینری کے پاس آ گیا۔ میرے حالات ابتر تھے میں کبھی کار واش میں کام کرتا تو کبھی بوٹل ڈیپو میں۔ زندگی اوکھی سوکھی چل رہی تھی کہ ایک شب جانے کیا ہوا؟
ہنری نے دست درازی کی کوشش کی، اب میں کوئی کمزور دبو سا بچہ تو تھا نہیں میں نے بھی بیئر کی بوتل سے اس کا سر کھول دیا۔ اس کے سر سے بھل بھل خون بہنے لگا اور میں سمجھا کہ خبیث مر گیا ہے مگر بھلا ہو پڑوسن بڑھیا کا کہ اس نے شور شرابا سن کر جھانکنے کی زحمت کر لی یوں 911 آئی اور میں جیل یاترا پر روانہ کر دیا گیا۔ پر کیسی عجیب بات کہ اس ہولناک واقعے میں خیر کے کئی پہلو تھے۔ مجھے جو حکومتی وکیل ملا وہ واقعی انسان دوست تھا اور اس نے میرا کیس نئے سرے سے کھولا اور اس طرح ہینری کے ساتھ ساتھ کولنز بھی کیفرکردار تک پہنچا۔ حق تو یہ ہے کہ میں آج تک اس واقعہ کی شرمناک حقیقت سے آنکھیں چار نہیں کر سکا۔ بے بسی کا وہ گھٹن زدہ لمحہ میری پوری حیات پر محیط ہے۔
ہینری اور کولنز کو عمر قید با مشقت ملی پر میرا جی چاہتا ہے کہ میں کولنز کو بڑی دردناک موت دوں۔ اس کیس کے کھلنے پر مجھے بھی تین سال کی سزا ہوئی اور ساتھ ہی ساتھ مجھے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امریکن شہریت بھی مل گئی۔ میری تین سال کی سزا میں تخفیف ہوئی اور دو سال قید بھگتنے کے بعد مجھے ایک سال کے لیے کمیونٹی سروس کرنی پڑی۔ اولڈ ھوم کے کچن میں پریپ کک کے طور پر مجھے ایک سال کام کرنا تھا۔ یہ کام میرا من بھاتا کہ میں کھانا بنانے میں اماں کی مدد کرتا تھا اور اکثر ہینری کا کھانا بھی بنا دیا کرتا تھا۔
اب میں اپنی زندگی کے ساتھ کچھ مثبت کرنا چاہتا تھا اور جانوروں کے بجائے انسانوں جیسی زندگی بسر کرنے کا دل سے متمنی بھی۔ بہت سوچ سمجھ کر میں نے کلنری اسکول(culinary school) میں داخلہ لیا، یہ دو سال کا کورس تھا۔ خرچہ نکالنے کے لیے رات کی شفٹ میں sabco کا ٹرک انلوڈ کرنے لگا۔ اس کورس کے پیچھے میں نے اپنی جان لڑا دی کہ میرے پاس اپنی زندگی کو بدلنے کا یہ آخری موقع تھا۔
کورس کامیابی سے مکمل کرنے کے بعد چھوٹے موٹے ریسٹورنٹ میں نوکری کرتا کراتا قسمت کی یاوری سے فور اسٹار ہوٹل میں شیف بنا کہ اس دوران میں ریڈ سیل red seal بھی حاصل کر چکا تھا۔ اب زندگی میں پہلی بار مالی آسودگی کے ذائقے سے آشنا ہوا اور ایک پیٹ بھری اور بےخوف زندگی سے خظ اٹھانے لگا۔ بڑی کوششوں سے میں نے اپنے آپ کو ہر طرح کے نشے سے بعض رکھا حتی کہ میں سگریٹ بھی نہیں پیتا تھا۔ اب مجھے اماں بہت یاد آتی تھی اس کی کسمپرسی کی موت میرا پچھتاوا بن گئی تھی اور میں اپنی ضمیر کی چبھن کو کم کرنے کی خاطر اسی اولڈ ھوم کے کچن میں جہاں میں نے سزا کے طور پر ایک سال کمیونٹی ورک کیا تھا ہر سنیچر کو رضا کارانہ طور پر کام کرنے لگا۔