Thursday, 02 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Shaheen Kamal/
  4. Dhool (2)

Dhool (2)

دھول (2)

علاج کے نام پر اب بس sedative ہی حدیقہ کے درد کا درماں تھی۔ ہمیشہ سے سنا ہے کہ بجھتی شمع بھڑکتی ضرور ہے۔ سو حدیقہ نے اس بھڑکنن سے فائدہ اٹھایا اور فیضان سے کہا کہ پردہ گرنے سے پہلے وہ اپنے سب دوستوں اور ملنے جلنے والوں سے ملنا اور ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہے۔ اس نے ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا اور پوری سج دھج کے ساتھ اپنے مہمانوں کو خود خوش آمدید کہا۔ آنے والے تمام مہمان اسی مغالطے میں رہے کہ وہ پھر سے کینسر فری ہوگئی ہے۔

مبارکی سلامتی کے گیت گائے گئے اور شام گئے تک محفل میں قہقہوں کا شور رہا۔ بتانے والے بتاتے ہیں کہ اس شام لحظے لحظے اس کی بجھتی آنکھیں جھپکتی اور دھندلاتی رہیں۔ اس شام اس نے اپنے آخری مہمان کو خود الوداع کہا۔ سنا ہے کہ وہ رات اس کے ضبط کی آخری رات تھی۔ اس رات اس نے اپنا ماسک اتار دیا، صبر ہار دیا تھا۔ وہ فیضان اور تینوں بچیوں کو گلے لگا کر زور زور سے روتی رہی۔ رات گئے آدھی جاگی اور سوئی بچیوں کو فوزیہ نے ان کے کمروں میں لٹایا۔ باوجود فیضان کے اصرار حدیقہ نے اُس رات پلکیں نہیں موندی۔ اپنے نحیف ہاتھوں میں فیضان کا ہاتھ لیے ایک ٹک اسے تکتی رہی۔

ہم موند کے پلکیں کبھی رویا نہیں کرتے

آنکھوں میں جو آنسو ہو تو سویا نہیں کرتے

اس رات پہلی بار، اپنی بیماری کے ڈیڑھ سالوں میں پہلی بار اس نے رنجوری سے کانپتے ہوئے کہا تھا "فیضی میں جانا نہیں چاہتی، میں مرنا نہیں چاہتی"۔ "تمہارے ساتھ مل کر اپنی بچیوں کو بڑا کرنا چاہتی ہوں۔ انہیں جوان ہوتے دیکھنا میرا دلی ارمان ہے۔ مجھے انہیں دنیا کی اونچ نیچ اور لوگوں کو پرکھنے کا گن طریقہ سیکھانا ہے۔ میں ان تینوں کی کونوکیشن (convocation) دیکھنا اور ان کی کامیابیوں کا جشن منانا چاہتی ہوں۔

ان تینوں کی شادیاں اور ان کے بچے!

ہائے میرے خواب، ہائے میرے خواب فیضی! "

وہ ندھال ندھال ایک بار پھر بلک پڑی۔

بھلا اللہ کے خزانے میں کس چیز کی کمی ہے فیضی؟ ایک میرے نہ ہونے اُس کی جنت کی رونق ماند تو نہ ہوتی ہوگی؟ وہ مجھے بس تھوڑی سی مہلت اور دے دے۔ تمہارے اور بچیوں کی ہمراہی میں دنیا اتنی حسین ہے فیضی کہ مجھے تو جنت کی بھی طلب نہیں۔ تم چاروں ہی تو میری دنیا اور جنت ہو۔

اس نے دل گیری سے سر تکیے پر ڈال دیا۔

میں حدیقہ کے گستاخانہ جملوں پر کانپ گیا، مجھے شدت سے خوف محسوس ہو رہا تھا۔ مولویوں نے ہم عام انسانوں کی ایسی ذہن سازی کر دی ہے کہ وہ "ربِ کریم"، رحیم کم اور قہار زیادہ لگتا ہے۔ میں بہت ڈر گیا تھا۔ کہیں ان جملوں کے سبب گرفت نہ ہو جائے، خدا نہ کرے حدیقہ کے سارے صبر اور ریاضت پر پانی نہ پھر جائے۔

بس اب چپ ہو جاؤ حدیقہ! خدارا تھوڑی دیر سونے کی کوشش کرو!

میں نے اس کا سر سہلاتے ہوئے کہا۔

"اب تو بس سونا ہی سونا ہے فیضی۔

اب بچا ہی کتنا وقت ہے"۔

کیسے پایا تھا تجھے پھر کس طرح کھویا تجھے

مجھ سا منکر بھی تو قائل ہوگیا تقدیر کا

اس نے آہستگی سے یہ شعر پڑھا۔ پھر پوچھا کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم لوگوں کی محبت کو کسی کی آہ لگی ہو۔

کن وہموں میں پڑ گئی ہو حدیقہ ایسا کچھ نہیں ہے۔

میں نے اسے سمجھانے کی مقدور بھر کوشش کی گو کہ میرا دل بھی پانی پانی تھا۔ اس کی آنکھوں میں عجیب سی ویرانی تھی جیسے بجھتی شمع کا دھواں۔

فیضان تم جانتے ہو نا کہ مجھے اندھیرے سے ڈر لگتا ہے، میں کبھی بھی مکمل اندھیرے میں نہیں سوتی۔ فیضی قبر تو بہت تاریک اور ٹھنڈی ہوتی ہے! !

وہ پورے جسم سے کانپ رہی تھی۔

میں جانے ضبط کی کن منزلوں پر تھا۔ میں نے اس کا کمبل ٹھیک کرتے ہوئے بےبسی اور بھیگی آنکھوں سے بے اختیار

اس بے نیاز کو پکارا، مدد میرے رب مدد!

فجر کے قریب اس آنکھیں لگیں۔ دس بجے جب فوزیہ بچوں کو ناشتا کروا رہی تھی، حدیقہ بھی اٹھ گئی۔ اسی وقت دروازے پر اطلاعی گھنٹی بجی اور ایمزون کا ایک بڑا پارسل آیا۔ جانے حدیقہ بچیوں کے لیے کیا کیا منگوایا کرتی تھی؟ نیچے بیسمنٹ میں ڈبوں کا ایک ڈھیر جمع تھا۔ جنہیں اس نے تین مختلف خانوں میں بچیوں کی نام اور مستقبل کی تاریخوں کی پرچی کے ساتھ ترتیب سے رکھوایا تھا۔ ڈبہ دیکھ کر اس کے لبوں پر ایک خفیف سی مسکراہٹ آ گئی اور کہا لو آخری ڈبہ بھی آ ہی گیا۔ میں تھرا گیا کہ میں اس آخری ڈبے میں بند اشیاء اور اس کے مقصد سے با خبر تھا۔ میں، اس آنے والے لمحے سے آگاہ تھا، مگر نہیں نہیں ابھی نہیں۔

میں بے بسی سے صوفے پر پہلو بدل کر رہ گیا۔

پھر!

حدیقہ نے سوالیا نظروں سے مجھے دیکھا۔

آج بعد عصر ٹھیک ہے۔

یہ سوال نہیں، اس کا حکم تھا۔

بعد نماز عصر میرا اور فوزیہ کا نکاح ہوگیا۔ حدیقہ نے ایمزون سے فوزیہ کے لیے شادی کا جوڑا منگوایا تھا۔ بہت خوب صورت سرخ کام دار بھاری جوڑا۔

وہ رات ہم سب کے دلوں پر ساون کے بھرے بادلوں کی طرح بھاری تھی۔ رات آہستہ آہستہ رینگتی رہی اور وہ سانس سانس کو ترستی رہی۔ آکسیجن سلینڈر بھی معاون نہ تھا۔ عصر کی اذان پر فسانہ ختم ہوا۔

***

حدیقہ کا یہ فسانہء غم میری ذہنی صحت پر عجب طریقے سے اثر انداز ہوا۔ میں جو اسے ذاتی طور پر جانتی بھی نہ تھی روز بہ روز اس کی بے بس موت اور تشنہ آرزوؤں کے دکھ میں ڈوبتی چلی گئ۔ حدیقہ کی موت نے مجھے اس طرح چھوا تھا کہ موت کی دہشت نے مجھے اپنے شکنجے میں کس لیا۔ میں اکثر اپنے بچوں کو لپٹا کر بے اختیار رونے لگتی۔ ایک ٹک انہیں دیکھتی اور پھر میری آنکھوں سے ساون کی جھڑی بہنے لگتی۔ میں بچوں کے لیے از حد متفکر رہنے لگی تھی، انہوں راتوں میں اٹھ اٹھ کر دیکھتی۔ اپنے پہلو میں بے خبر سوئے اپنے میاں، مصطفیٰ کے چہرے کو تکتی رہتی، یہاں تک کہ آنسوؤں میں اس کا چہرہ دھندلا جاتا۔ اپنی شدید ترین مصروف شیڈول میں بھی جانے کیسے وقت نکال کر مصطفیٰ کو فون اور میسجز کرتی رہتی۔ میری بھوک اور نیند سب ختم ہو چکی تھی اور میرا وزن تیزی سے گرنے لگا تھا۔

میں یہاں تک بکھری کے مجھے ماہر نفسیات کا سہارا لینا پڑا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ میں سب سے بے نیاز ہو گئ، حتیٰ کے اپنے آپ سے بھی بےگانی۔ جیسے جیتے جی مر چکی ہوں۔ میرے پچھلے ڈیڑھ دو سال کٹھن ترین گزرے ہیں اور اب تک میرا علاج چل رہا ہے۔

ہمارے اور فیضان کا خاندان ایک ہی شہر کا رہائشی ہے۔ سو اکثر، کسی مال میں یا پارک میں آمنا سامنا ہوتا ہی رہتا ہے۔ وہ لوگ بظاہر خوش باش نظر آتے ہیں۔ ان کے خاندان میں ایک بچے کا اضافہ بھی ہو چکا ہے۔ بچیاں اب فوزیہ کو مما کہتی ہیں اور فیضان جان نچھاور کرنے والا شوہر دکھتا ہے۔ اچھی بات ہے بلکہ بہت صائب کہ یہ لوگ اپنے دکھوں کے فیز سے نکل گئے ہیں۔ وہ لوگ بالکل نارمل زندگی بسر کر رہے ہیں، مگر انہیں اتنا خوش باش دیکھ کر مجھے anxiety کیوں ہوتی ہے؟

میں کیوں مضطرب ہو جاتی ہوں؟

مجھے شدت سے حدیقہ اور اس کی اپنے خاندان کے لیے کی گئی لاتعداد کوششیں یاد آتی ہیں۔ اس کی بےبسی اور تڑپ میرے دل کو کیوں گھائل کرتی ہے؟

کیا واقعی جانے والوں کو اتنا جلدی بھول جانا اتنا سہل ہوتا ہے؟

کیا انسان اور اس سے جڑے رشتوں کا نعم البدل ممکن ہے؟

یا ہم لوگ بہت تیز رفتار ہو گئے ہیں۔ پتہ نہیں میرے پاس بہت سارے سوالات اور جواب ایک کا بھی نہیں، دور دور تک نہیں۔ انسان کے ضیاع پر میرا دل کڑھتا ہے۔ ایک جانے والا اپنے سے جڑے رشتوں کے لیے کیا کچھ نہیں کرتا۔ اپنی ساری توانائی، ذہانت اور سلیقہ طریقہ اپنے بچوں کی پرورش اور اینٹ گارے کے مکان کو گھر بنانے میں صرف کر دیتا ہے۔ اپنے آپ کو پس پشت ڈال کر، اپنے خوابوں سے دستبردار ہو جانا کھیل نہیں پر نتیجہ! !

یہ کیسا شدید المیہ ہے کہ اس انسان کے گزرنے کے بعد مختصر سی مدت ہی میں وہ راستے کی دھول ٹھہرایا جاتا ہے۔ وہ ہماری زندگیوں میں کہیں بھی تو نہیں ہوتا شاید یادوں میں بھی نہیں۔

Check Also

Ache Rishte Kyun Nahi Milte

By Syed Badar Saeed