15 March Islamophobia Ke Khilaf Jung Ka Aalmi Din
15 مارچ اسلاموفوبیا کے خلاف جنگ کا عالمی دن
اسلامو فوبیا ایک ایسی ذہنی کیفیت اور انتشار کا نام ہے کہ جس میں غیر مسلم مسلمانوں سے ڈر خوف اور خطرہ محسوس کرتے ہیں۔ جس کی وجہ سے غیر مسلموں کے دل میں مسلمانوں کے لیے بغض و حسد اور نفرت پیدا ہوتی ہےاسی وجہ سے غیر مسلم معاشرے مسلمانوں کو اپنے لیے خطرہ تصور کرتے ہیں ان کے نزدیک مسلمان اور اسلام ان کے معاشرے کا امن تباہ کر سکتے ہیں حالانکہ اگر تاریخ کو کھنگالا جائے تو آج کے ترقی یافتہ معاشرے اسلام کے وضع کردہ معاشی اور ماشرتی نظام پر عمل پیرا ہو کر ہی آج ترقی یافتہ کہلاتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان ملکوں میں اسلامی ماڈل کے داخل ہونے سے پہلے جہالت بد امنی اور افلاس پھیلا ہوا تھا ان ملکوں میں چند اخلاقی برائیوں کے ما سوا اکثر و بیشتر اسلامی نظام حیات ہی رائج ہے جو انکی خوشحالی کا باعث ہے۔ ان لوگوں کی اسلام سے خائف ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ کہیں ایک بار پھر نہ اسلام غلبہ پا کر ان معاشروں پر حکومت کرنے لگے۔ اسلامو فوبیا میں تیزی نائن الیون کے کے بعد دیکھی گئی کہ دنیا جہاں میں بسنے والا ہر مسلمان راتوں رات دہشت گرد ٹھرا اور مسلمان بادشاہ اور ڈکٹیٹر بے بسی کی تصویر بنے اپنے اقتدار کو طول دینے میں مصروف تھے۔
مسلمان چاھے مرد ہو یا عورت اس سے مغربی معاشرے میں انتہائی شک اور ذلت آمیز سلوک کیا جانے لگا۔ ایسے گھٹن اور جبر والے ماحول میں اس وقت کی ایک کمزور و ناتواں آواز نے اپنی آواز جہاں ہو سکا بلند کی۔ گلوبل پیس اور یونٹی کانفرنس جو 2008 میں ایک یورپی ملک میں منعقد ہوئی اس کانفرنس میں اس مرد قلندر نے مغرب کی ہی زبان میں ان کو لاجک اور منطق سے سمجھانے کی کوشش کی کہ دین اسلام کے مطابق اللہ تعالی نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ھزار پیغمبر دنیا میں بھیجے۔ وہ چاہے کسی بھی مزھب کا نبی ہو، عیسائیت کا یہودیت کا یا اسلام کا سب کا مشن و مقصد ایک ہی تھا انسان کو انسان بنانا اور دنیا میں انصاف امن و سلامتی قائم کرنا نہ کہ انسان کو ایک ذہین جانور بنانا۔ کیوں کہ جانوروں کے قانون میں جو طاقتور ہو وہی زندہ رہ سکتا ہے۔
اس اسلام کے مجاھد نے ہر فورم پر کافروں کو بتایا کہ آپ لوگوں کو سمجھنا چھاہیے کے 17020 لوگوں کے عمل پر آپ ڈیڑھ ارب مسلمانوں کو کس طرح دہشت گرد قرار ٹھرا سکتے اور اسلام کو دہشت گردی کے ساتھ لنک کر سکتے ہیں۔ اس نے پوری دنیا کو بتایا کہ نائن الیون سے پہلے زیادہ تر بلکہ ستر فیصد خود کش بمبار ہندو تامل ٹائیگرس تھے۔ تو کیا آپ لوگوں نے سارے ہندؤں کو دہشت گرد کہا یا ہندوؤں کے پیشوا کو مورد الزام ٹھرایا کہ تم دہشت گردی کی تبلیغ کر رہے ہو۔ یہ سہی بھی تھا کہ دہشت گردی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔
اسلام ایک آزاد خیال مذہب ہے وہ کسی بھی معاشرے میں ہندوؤں عیسائیوں یا بدھمت کے پیروکاروں کے ساتھ ایک ساتھ رہ سکتا ہے اور مسلمان تمام مزاھب کے لوگوں کے ساتھ امن سلامتی سے رہتے آئے ہیں۔ جس کی سب سے بڑی مثال ریاست مدینہ مسلمانوں کی پہلی ریاست جس میں تمام بڑے مذاھب کے ماننے والے ایک ساتھ رہتے تھے۔ اسلام کسی شخص کو جبراََ اسلام قبول کرنے کی تلقین بھی نہیں کرتا کیوں کہ دین اسلام برابری پر یقین رکھتا ہے۔
اسلام میں ایک بے گناہ کا قتل پوری انسانیت کو قتل کرنے کے برابر ہے۔ اس مرد آھن نے دنیا کے سب سے بڑے فورم پر کھڑے ہو کر کہا کے آپ لوگ جب ریڈیکل اسلام کا نعرہ لگا کر ہمارے نبی ﷺ کی شان میں گستاخی کرتے ہیں تو ہمیں دلی تکلیف پہنچتی ہے اور جس کی وجہ سے مسلمانوں کی طرف سے اس کا رد عمل آتا ہے اور آزادی رائے کے نام پہ ہمارے جذبات کو ٹھیس پہنچائی جاتی ہے۔
اس نے عالمی دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کی کوشش کی کہ جس طرح ہولوکاسٹ پر مغرب میں پابندی ہے اور اس عمل کو کرنے والے کو سخت سزا بھگتنی پڑتی ہے کیوں کہ یہ آزادی اظہار رائے میں نہیں آتا، تو اسی طرح مسلمانوں کو جزبات کو آزادی اظہار رائے کے نام پہ ٹھیس پہنچائی جاتی ہے تو اسے بھی بند ہونا چاہیے۔ اس اسلام کے ایجنٹ نے دنیا کے ہر فورم پر اسلامو فوبیا کے خلاف آواز بلند کی جس کی بدولت مغربی حکمران و عوام کا نظریہ اسلام کے بارے میں کافی حد تک تبدیل ہوا اور اس کی ذاتی کوششوں سے یو این نے 15 مارچ کو اسلامو فوبیا کے خلاف جنگ کا عالمی دن قرار دیا۔ اسلام کی اس خدمت کا سہرہ اس اسلامی ایجنٹ کے سر تا قیامت سجا رہے گا۔ جسے کوئی فتوی باز ملاں کبھی نہ مٹا سکے گا۔۔

