Jurmano Ka Mausam, Akhir Kyun?
جرمانوں کا موسم، آخر کیوں؟

پاکستان جیسے معاشرے میں جہاں بدترین گورنس اور لاقانونیت کا راج ہو، وہاں قانون پسند ہونے کے چسکے لینے اور عام آدمی کو شکنجے میں کسنے والے چند انتظامی قوانین پر عمل کی تلقین کرکے اچھا شہری بننے کی فنکاری کرنا جبر کی مکمل سہولت کاری کے مترادف ہے۔
اول یہ کونسی جمہوریت ہے جہاں جس کا دل آتا ہے اپنی مرضی کے جرمانے لگا دیتا ہے؟ کیا کسی عوامی نمائندے سے پوچھا گیا؟ کسی عوامی نمائندے کو علم بھی ہے کہ انسانی آزادی، کی کوئی قدر یا ویلیو ہے؟
ویسے یہاں جو چھڑی دکھائے گا سب اسی طرف سجدہ ریز ہو جائیں گے مجال ہے کہ کہیں کسی قومی اسمبلی کا سینٹ یا صوبائی اسمبلیوں میں کسی ممکنہ قانون پر اعلیٰ بحث و مباحثہ نظر آ جائے۔
لیکن اس پر کوئی سوال تک نہیں کرتا۔
دھماکے آپ نہیں روک سکتے، پابندی لگا دیتے ہیں دو بندے اکٹھے سواری نہ کریں۔ سوال یہ ہے کہ پھر دو انسان گاڑی میں اکٹھے کیوں بیٹھیں؟ ان پر بھی پابندی لگا دیں۔ ایسے جاہلانہ پابندیاں تو شاید شمالی کوریا میں بھی نہ ہوں۔
گاڑی میری ہے، روڈ میرے پیسوں سے بنتے ہیں آپ ٹکے کی مدد نہیں کرتے، روڈ پر پیدل سواروں کو، بائیکس اور گاڑیوں سے تحفظ درکار ہے آپ مہیا نہیں کر سکے۔ بائیکس کو گاڑیوں سے بچانا ہے، کوئی سہولت آپ نہیں دیتے، چھوٹی گاڑیوں کو بڑی گاڑیوں سے بچانا ہے کسی قسم کی تدبیر نظر نہیں آتی۔ بس منہ اٹھا کر عام آدمی جرمانے بھرے، دفتروں میں ذلیل ہو اور لائسنس کے رشوتیں دے کہ وہاں سرکس کے مداریوں والے کرتب دکھاتے بھول چوک ہو جائے یا اگلے کا موڈ خراب ہو تو وہ آپ کو ریجیکٹ کر دے۔
کیا کوئی ڈیٹا ہے کہ لائسنس یافتہ نے کتنے حادثات کئے اور غیر لائسنس یافتہ نے کتنے کئے؟ کم عمر ڈرائیورز کو چھوڑ کر مجھے غالب گمان ہے کہ غیر لائسنس شدہ ڈرائیورز کے کم حادثات ہونگے۔ ایک ثبوت تو شاید یہ ہو کہ تیس چالیس برس پہلے حادثات کی معلوم شرح بہت کم تھی اور لائسنس یافتہ ڈرائیور بھی کم تھے۔ کیونکہ اصل بات جس طرح ڈگری کرکے ماتھے پر چپکانے سے کوئی تعلیم یافتہ نہیں ہوجاتا اسی طرح بس مداریوں والے کرتب کا سرٹیفکیٹ بنوانے سے تاکہ حکومت مال کما سکے، آپ ذمہ دار ڈرائیور نہیں تسلیم کئے جا سکتے۔
بھلا کوئی ذمہ دار کیسے بنے جب ہر اثر و رسوخ والا با آسانی ہر پھاٹک، چوکی اور ضابطے سے نکل جاتا ہے اور نزلہ گرتا ہے تو عام آدمی پر گرتا ہے۔
اب کچھ لوگ یہ فرمائیں گے کہ ہمارا کام تو بس قانون کی پابندی ہے تو جناب آپ کیا ریاست کے غلام ہیں یا برابر کے شہری ہیں؟ آئین کیا کہتا ہے؟ کیا میرے حقوق کے تحفظ کے بغیر میں اندھوں بہروں کی طرح بس چلتا رہوں؟
کیا مذاق ہے کہ حکومت کہے ہمیں آپ کی حفاظت کی فکر ہے ہیملٹ لازمی پہنیں، سیٹ بیلٹ لازمی لگائیں، لائسنس بنوائیں وہ کریں یہ کریں مگر جس کام میں پیسے ہم نے نہیں دینے یعنی میرے گھر کی حفاظت، میرے مال و جان کی حفاظت، میرے مذہب و قومیت پر قدغن نہ ہونے کی گارنٹی اور آزادی اظہار، وہاں پر یہی حکومتیں منہ بند کرکے مکمل ناکام دکھائی دیتی ہیں۔
سادہ سا سوال ہے کہ کیا سگریٹ پینے سے جان کو خطرہ نہیں ہوتا تو اس پر مکمل پابندی کیوں نہیں؟ شراب کے حوالے بھی مغرب کے جمہوریت پسندوں سے یہی سوال ہے کہ کیوں ہر سال لاکھوں لوگ آپ شراب نوشی سے مرنے دیتے ہیں؟ کیوں موٹاپے سے لاکھوں لوگ مرنے دیتے ہیں؟ کیا ریاست کو حق ہونا چاہیے کہ وہ جہاں دل چاہے انسان کی زندگی میں گھس جائے؟
کہا جا سکتا ہے کہ روڈ پر دیگر لوگ بھی سفر کرتے ہیں۔ ذاتی زندگی پر ویسے قانون ممکن نہیں۔ پھر یہی جواب ہے کہ جب تک آپ اجتماعی معاملات میں کسی کو نقصان نہیں پہنچاتے تو آپ کو کیوں تنگ کیا جاتا ہے اور زور زبردستی سے ایسے "قانون" کی پابندی کروائی جاتی ہے؟
جب آپ نقصان کریں آپ کو سزا ملے گی بات ختم!
یہ سب ہتھکنڈے شہری سہولیات اور تحفظ کے نام پر ریاست کی حکمرانی کو مضبوط کرنے کے حربے ہیں۔ جب ریاست اپنے بنیادی کام میں ناکام ہو جائے تو ایسے حربوں میں شدت آ جاتی ہے تاکہ قانون پسندی کا تاثر گہرا کیا جا سکے۔
مغرب اس لئے یہ تاثر چاہتا ہے کہ وہ دولت کی تقسیم میں بھیانک غیر منصفانہ توازن کو توڑنے میں مکمل ناکام ہے، دوم اونر شپ کو جو ڈیڑھ دو صدیاں قبل ہر غریب کی دسترس میں تھی وہ ایک خواب بن چکی ہے۔
مشرق یا تھرڈ ورلڈ کا تو علم ہے کہ حکمران طبقہ نے اپنا تسلط ہر قیمت پر برقرار رکھنا ہے تو یہ قوانین عوام کو سدھانے میں مددگار ثابت ہوتے ہیں۔

