Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sanober Nazir
  4. Rubi Maseeh

Rubi Maseeh

روبی مسیح

صبح سویرے کمیٹی چوک راول پنڈی کے بس سٹاپ پر سواری کے انتظار میں کھڑی روبی مسیح سورج کو اپنے وجود میں اُترتا محسوس کر رہی تھی۔ آج پھر وہ نئے کام کی تلاش میں"مُلا کی دوڑ مسجد تک" کے مصداق اسلام آباد آنے کا عہد کیے ہوئے تھی۔

سینکڑوں بے حال جسموں سے کھچا کھچ بھری ہائیس وین سٹاپ پر رکی تو اسے یقین تھا کہ اس کے دھان پان وجود کو بھی اس ڈبے میں سمونے کی گنجائش نہیں ہوگی، لیکن کنڈیکٹر نے اسے ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بٹھا دیا۔ ڈرائیور کا ہاتھ پورا رستہ گیئر بدلتے ہوئے اس کی مدقوق ران کو مسلسل سہلاتا رہا لیکن روبی اب بے حس ہو چکی تھی۔

پہلی بار سفر کے دوران اپنے جسم کی بےحرمتی پر روبی نے حلق پھاڑ کر چلانا شروع کردیا تھا۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ ڈرائیور کا بازو اس کے جسم سے اکھاڑ پھینکے۔ روبی تو سوائے شور مچانے کے کچھ نہ کرپائی لیکن کنڈیکٹر نے روبی کو بازو سے پکڑ کر سواری سے بیچ رستے میں ہی اتار پھینکا تھا۔ یہ سوچ کر کہ "میں ایسے کتنے ہاتھوں پر واویلا مچا سکتی ہوں" وہ اب دوران سفر چپ سادھے ہی رہا کرتی ہے۔

"باجی میں کام ڈھونڈ رہی ہوں۔ اگر آپ کو گھر کے کام کاج کے لیے کسی کی ضرورت ہو تو پلیز مجھے بتائیں"۔

دو خواتین کو اپنے وسیع و عریض بنگلے کے بیرونی دروازے پر بات کرتے دیکھ کر روبی اُن کے قریب آئی اور مخاطب کرکے بولی۔

ایک پکی عمر کی عورت جو غالباً بنگلے کی مالکن تھی فوراً اُس لڑکی کا شجرہ نسب معلوم کرنے لگی جبکہ دوسری عورت جو نسبتاً کم عمر تھی روبی کا بغور جائزہ لیتے ہوئے سوچنے لگی۔

"لڑکی کا رنگ کبھی سانولا سلونا ہوا کرتا ہوگا جسے سورج کی تپش نے جلا کر کالا سیاہ کر دیا ہے۔ اس کے باوجود آنکھوں کی پُتلیوں کی چمک ماند نہیں پڑی۔ بات کتنی شائستگی سے کر رہی ہے جیسے پڑھی لکھی ہو"۔

مکان مالکن روبی کو کام کے لیے اپنے گھر لے جانے لگی تب کم عمر عورت نے روبی کو کہا "جب اوپر والی باجی کے کام سے فارغ ہو جاؤ تو نیچے میرے گھر کا بھی چکر لگانا مجھے بھی کچھ کام کروانے ہیں۔

روبی نے مسکرا کر تائید میں سر ہلایا اور اندر چلی گئی۔

روبی اوپر والے پورشن سے جب نیچے والے گھر آئی تو اس وقت دوپہر کے تین بجنے آئے تھے۔

باجی بتائیے کیا کام کرنا ہے؟ روبی نے آتے ہی پوچھا۔

کھانا کھایا تم نے؟ کم عمر عورت نے روبی کے سوال کو نظر انداز کرتے ہوئے خود سوال کر ڈالا۔

نہیں باجی۔ چائے پی تھی اوپر۔ روبی نے ٹہر ٹہر کر جواب دیا۔

عورت نے فوراً سامنے رکھے برتنوں میں سے ایک پلیٹ میں کھانا نکالا اور روبی کے سامنے رکھتے ہوئے بولی۔ پہلے پیٹ بھر کر کھانا کھاؤ پھر بتاتی ہوں کیا کیا کام کرنے ہیں۔

روبی کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ باجی آپ مجھے کسی پرانی بے کار پلیٹ میں کھانا دے دیں۔ یہ تو آپ کے استعمال والی پلیٹ ہے۔

ہمارے ہاں بے کار برتن نہیں تم کھانا کھاؤ ویسے ہی کافی دیر ہوگئی ہے۔

عورت نے ایسا تاثر دیا جیسے روبی کی بات اُسکے پلّے ہی نہ پڑی ہو۔

اپنے ساتھ ہونے والے اس مناسب سلوک کے پیچھے کیا کہانی تھی اس کا انکشاف اُسے جلد ہی ہوگیا۔ روبی کی یہ کم عمر باجی حال ہی میں بیرون ملک سے پاکستان واپس آئی تھی اور بطور کرایہ دار اس گھر میں رہائش پذیر تھیں۔ چونکہ ابھی تک ان میں پردیس والی عادتیں رچی بسی ہوئی تھیں اس لیے مقامی میموں والے نخرے ناپید تھے۔ کام والی، ماسی یا نوکر ابھی اُن کے گھر کا حصہ نہیں بنے تھے۔

ناروال سے پنڈی شفٹ ہوئے روبی کے خاندان کو تقریباً سال ہی ہوا تھا۔ اس عرصے میں روبی نے کئی گھروں میں کام کیا لیکن غیر مناسب اور ہتک آمیز سلوک نے اُسے لمبا عرصہ کہیں ٹکنے نہ دیا تھا۔ وہ روز پہلے اوپر مکان مالکن کا کام کرتی پھر نیچے والی باجی کے گھر آتی۔ ایک ڈیڑھ ہفتہ نہ گزرا تھا کہ ایک دن روبی وقت سے پہلے نیچے موجود تھی۔

باجی میں نے اوپر والی باجی کا کام چھوڑ دیا ہے۔ روبی نے روہانسی ہوتے ہوئے کہا۔

کیوں؟ کیا ہوا؟ باجی نے پوچھا۔

باجی وہ میرے ساتھ بہت بُرا سلوک کرتی ہیں کیونکہ میں کرسچن ہوں۔ مجھے بات بے بات چوڑی پکارتی ہیں۔ مجھے باورچی خانے میں قدم نہیں رکھنے دیتی کہ ناپاک ہوجائے گا۔

پہلے دن مجھے چائے دینے کے لیے وہ باہر لان سے ٹوٹا ہوا مگ اٹھا لائیں اور اس میں مجھے چائے دی۔ پیاس لگنے پر مجھے اسی مگ میں پانی دیتی ہیں۔ حتی کہ مجھے فریج تک کو ہاتھ لگانےکی اجازت نہیں۔ "روبی ایک ہی رو میں بولے گئی"۔

باجی نے روبی کو مزید کریدنا مناسب نہ سمجھا اور جھاڑو پونچھے کے ساتھ برتن دھونے اور باورچی خانے کی صفائی ستھرائی کا کام بھی سونپ دیا تاکہ جو آمدنی اسے مکان مالکن سے ملتی تھی وہ اسے ان کاموں کے عوض مل جائے۔

باجی آپ برتن مجھ سے دھلوائیں گی؟ روبی نے حیرانی سے پوچھا۔

ہاں ظاہر ہے کیونکہ اب اگلے ہفتے سے روز صبح میری کلاسیں شروع ہو رہی ہیں۔ اب تمھیں ہی میری غیر موجودگی میں گھر سنبھالنا ہوگا۔ باجی نے پھر انجان بن کر روبی کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات کو نظرانداز کیا۔

روبی نے تَن دہی سے نیچے والی باجی کے گھر کو چمکا دیا۔ ان کے آنے سے پہلے ہی تمام کام نمٹا دیا کرتی۔ باجی اور ان کے بچوں کے آتے ہی فریج میں رکھا کھانا گرم کرکے اور سلاد رائیتہ بنا کر میز پر چُن دیتی۔

روبی کل سے باورچی کی صفائی کے ساتھ ساتھ کھانا بنانے کی ذمہ داری بھی تمھاری ہے۔ ابھی تو جو بھی کھانا تمھیں بنانا آتا ہے بنا لیا کرو آہستہ آہستہ میں تمھیں مختلف پکوان بنانا بھی سکھا دوں گی۔ باجی نے روبی کو فیصلہ سنایا۔

روبی حیرت واستعجاب کے عالم میں سوچنے لگی کہ "ہم اس ملک کے باشندے ہونے کے باوجود برابری اور بنیادی حقوق کے لیے ترستے ہیں۔ ہمارے لیے استعمال ہونے والا لفظ "اقلیت" چوڑے اور بھنگی سے مختلف نہیں۔۔ اقلیت کہیں یا چوڑے بات تو ایک ہی ہے کیونکہ ہمارے نصیب میں صرف گھروں، گلیوں، نالوں اور گٹروں کی صفائی کرنا پتھر پر لکیر ہے۔ اس سماج میں اگر اکا دکا کوئی غیر مسلم اپنی جدوجہد اور سخت محنت کے بعد بہتر ملازمت حاصل کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتا ہے تب بھی چوڑے یا اقلیت کے القاب اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے۔ ہمیں ملک کی اکثریت نے یہ احساس ہمارے ذہنوں میں بٹھا دیا ہے کہ ہمارے مقدر میں لوگوں کے ٹوٹے پھوٹے برتنوں میں کھانا کھانا ہی لکھا ہے۔

اب تو حالات اس نہج پر ہیں کہ ہم اپنے مسیحی یا ہندو نام رکھنے سے بھی ڈرتے ہیں۔ اب یہاں مسیحی افراد جان، ڈیوڈ، جارج یا سوزن کے بجائے خالد، ممتاز، طارق اور تانیا ملیں گے جو حتی الامکان اپنا اگلا نام بتانے سے گریز کرتے ہیں۔

ہماری اکثریت تعلیم اور لکھنے پڑھنے سے نابلد ہیں لیکن پھر بھی سب سے زیادہ بلاسفیمی کے الزامات ہم پر ہی لگتے ہیں۔ پھر نہ ہماری جان بخشی ہوتی ہے نہ ہماری آبادیاں جلنے، بھسم ہونے سے محفوظ رہتی ہیں۔ ہمارے گرجاگھروں کی اہانت بھی بے دریغ کی جاتی ہے۔

غالباً اس سماج کو رنگا رنگی سے خدا واسطے کا بیر ہے اسی لیے پورے ملک کو یک رنگی کرنے کا عہد کیا ہوا ہے"۔

روبی بے شک پڑھی لکھی نہ تھی لیکن سمجھ بوجھ میں کئی سقراطوں کو پیچھے چھوڑتی تھی۔

"آنٹی، یہ بریانی واپس لے لیں۔ امی نے سختی سے آپ کے گھر کا کھانا لینے سے منع کیا ہے"۔ مکان مالکن کی چھوٹی بیٹی نے روبی کی باجی کو بریانی کی پلیٹ واپس کرتے ہوئے کہا۔

کیوں بیٹا؟ باجی نے حیرت سے پوچھا

"آنٹی امی کہتی ہیں کہ آپ ایک چوڑی سے کھانا بنواتی ہیں۔ برتن بھی وہی دھوتی ہے اس لیے آپ کے گھر کی چیزیں ناپاک ہیں"۔ بچی کے دماغ میں جو بٹھایا گیا تھا وہی طوطے کی طرح دہراتی گئی۔

روبی باورچی خانے میں برتن دھوتے ہوئے چھوٹی سی بچی کی ہرزہ سرائی سنتی رہی اور آنسووں کے گھونٹ پیتی رہی۔

باجی نے بریانی بچی سے لی اور آئندہ کوئی بھی پکوان اوپر بھیجنے پر سختی سے پابندی عائد کردی۔

باجی آج نہیں آ پاؤں گی۔ مجھے اپنی بہن کے اسکول جانا ہے۔ روبی نے فون پر باجی کو اطلاع دی۔

"باجی میں بڑی محنت کرکے اپنی بہن کو پڑھا رہی تھی تاکہ وہ کسی اچھی ملازمت کرنے کے قابل ہو جائے۔ لیکن اسکول والے اسے اور اس کی ایک ہم جماعت ہندو لڑکی کو پچھلے تین سال سے اسلامیات میں فیل کر رہے ہیں۔ انتھک محنت کرنے کے باوجود میری بہن کو قرآنی آیات یاد ہو کر نہیں دیتیں دونوں بچیاں اسکول کی انتظامیہ، اساتذہ اور ہم جماعتوں کے نامناسب رویوں سے نالاں ہیں لیکن باجی کوئی فرار بھی تو نہیں۔ ہم تو بچپن سے لوگوں کی دھتکار اور ذومعنی جملوں کے عادی ہیں۔ لیکن تعلیمی درسگاہ میں بھی یہ سب ہو اس پر افسوس ہوتا ہے۔

"روبی نے اگلے دن باجی کو اپنی بہن اور اسکی ہم۔ جماعت ہندو لڑکی کی مشکلات کے بارے میں بتایا۔

"یہ تو سراسر ناانصافی ہے۔ ایک مسیحی یا ہندو بچی کو جبراً اسلامیات پڑھانا غلط ہے۔ قرآنی آیات و احادیث یاد کرنے یا سنانے میں خدا نخواستہ کوئی غلطی یا کوتاہی ہو جائے تو بلاسفیمی کا الزام لگتے دیر نہیں لگے گی۔ میں کل ہی اسکول جا کر بات کرتی ہوں۔

"باجی آپ کہاں کہاں ہمارے لیے جائیں گی۔ ویسے بھی کون سا میری بہن نے پڑھ کر تیر مار لینا تھا۔ اب تو قسمت سے سمجھوتا کرنے میں ہی سمجھداری ہے۔

باجی میں نے بہن کو پرائیوٹ پڑھانے کا فیصلہ کر لیا ہے"۔ روبی جیسی سخت جان لڑکی نے ہارے ہوئے لہجے میں باجی کو بتایا۔

میں ہوں روبی مسیح ایک اقلیت۔ میں نے باجی کے پاس دس سال گزارے۔ شادی کے بعد بھی میں نے باجی کا کام جاری رکھا لیکن جب حاملہ ہوئی تو کام چھوڑنا پڑا۔ آج میں تین بچوں کی ماں ہوں اور سال میں ایک بار ضرور باجی سے ملنے ان کے گھر جاتی ہوں۔ آج میں اپنے چھوٹے بیٹے کو باجی سے ملوانے ان کے گھر آئی ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ کبھی اس گھر سے میرا ناتا ٹوٹا ہی نہیں۔ میں باجی کو بتا رہی ہوں کہ آج بھی میرے اپنے بچوں کے لیے وہی خواب ہیں اور انہی مسائل کا سامنا ہے جو پندرہ سال قبل میرے اپنی چھوٹی بہن کے لیے تھے۔

جبکہ باجی روبی کے مسائل سن کر سوچنے لگی کہ جن کو ہم اقلیتیں گردانتے ہیں وہ صدیوں سے اسی مٹی کے باسی ہیں۔ ان کا جینا مرنا اسی دھرتی سے جڑا ہے۔ جنھیں ہم اقلیت کہہ کر خود سے الگ اور کمتر سمجھتے ہیں پاکستان کی ترقی میں بڑا سہرا انہی پارسی، ہندو، سکھ اور مسیحی برادری کے سر جاتا ہے۔ پاکستان میں برسوں سے آباد پارسیوں نے ہمارے غیر منصفانہ رویوں کے باعث بیرون ملک ہجرت کرنے میں ہی اپنی عافیت جانی کیونکہ یہ خوش حال برادری تھی۔ لیکن معاشی بدحالی کی شکار جن غیر مسلم برادریوں کو یہ مواقع میسر نہیں ان کا مستقبل تو اسی ملک سے وابستہ رہے گا۔

باجی جانتی ہے کہ روبی بحیثیت انسان لاکھوں کلمہ گو سے بہتر ہے لیکن اس سماج کے لیے ہے تو ایک مسیحی یا غیر مسلم ہی۔

بہ شُکریہ: وی نیوز

Check Also

Khyber Pakhtunkhwa Ka Jahannam

By Najam Wali Khan