Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sanober Nazir
  4. Do Sadiyon Ka Musafir

Do Sadiyon Ka Musafir

دو صدیوں کا مسافر

فلائی جناح کی فلائٹ P6759 کراچی روانگی کے لیے تیار ہے۔ تمام مسافروں سے درخواست ہے کہ گیٹ نمبر۔۔ اسلام آباد ایئر پورٹ پر اعلان سنتے ہی ماضی سے دوبارہ آج میں واپس آنا پڑا۔ دوپہر تک اندازہ نہیں تھا کہ یوں اچانک کراچی جانا پڑے گا۔ امید یہی تھی کہ سب بہتر ہوگا اور چند دن میں ابا ٹھیک ہوجائیں گے۔

آج سے ایک ماہ قبل تک سب ٹھیک ٹھاک ہی چل رہا تھا اور چند لمحوں کی لڑکھڑاہٹ نے سب کچھ الٹ پلٹ کر رکھ دیا تھا۔ اسپتال لے جانے پر وہی خبر سننے کو ملی جو عمر رسیدگی میں غالباً اکثر بزرگوں کی سماعت میں لاچاری گھول دیتی ہے۔ ابا کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ 92 سالہ ابا جو ایک ماہ پہلے تک اپنے بڑے بیٹے کے ہمراہ ماربل شوروم کی تمام کاروباری سرگرمیوں میں شریک رہتے تھے، اپنی 86 سالہ رفیق حیات جو 6 برس سے چلنے پھرنے سے معذور ہیں ان کی بھی ضروریات زندگی کو احسن طریقے سے پورا کرنے میں آگے آگے رہے، آج زندگی کے ایسے دوراہے پر آ کھڑے ہوئے جہاں امیدیں بڑی چابکدستی سے روٹھتی جاتی ہیں۔

ابو اور ابا میں فرق کو ابا انگلی کے اشارے سے سمجھایا کرتے، ابا سیدھی انگلی کی طرح جبکہ خمدار انگلی ابو کہلاتی ہے۔ فرق غالباً دبدبے کا ہوتا ہے جو ابا میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ ابا کو شروع سے ناصرف ان کے بچوں اور آس پاس رہنے والوں نے ابا کہا حتیٰ کہ ان کی بیوی بھی ان کا نام لینے کے بجائے ابا ہی پکارتیں۔

ابا کیا بولے؟ ابا کیا کھائے؟ ابا کہاں گئے؟

دکنی لہجہ والی رشیدہ بیگم کی پوری زندگی کا محور ابا، ہی رہے۔ امی جیسی عورت کم کم ہی نظر سے گزریں جن کی پوری زندگی گھر سے شروع اور گھر پر ہی ختم ہوتی دیکھی۔ اس بات سے قطع نظر کہ یہ اچھائی ہے یا برائی، رشیدہ بیگم کی دنیا بس یہی تھی اور وہ اسی میں مگن رہیں۔ دونوں خالہ زاد بھی ہیں۔ ابا، امی کو بی بی، بلاتے ہیں۔

آپریشن کے بعد ابا نے کھانے سے منہ موڑ لیا ہے، صرف چند گھونٹ پانی یا قہوہ، بس یہی پچھلے ایک ماہ سے ان کی خوراک ہے۔ تم دعا نہیں کرتی کہ ابا ٹھیک ہوجائیں، فون پر امی روتے روتے اس سے گلہ کرنے لگیں۔ وہ اس بات کا کیا جواب دیتی، زندگی کی حقیقت پر بھلا کب کسی کا بس چلا ہے۔

محمد رشاد 1932 میں ممبی میں پیدا ہوئے۔ باپ سورت کے گجراتی جبکہ والدہ اور خالہ ترکیہ کے تاریخی شہر بورصہ سے تعلق رکھتی تھیں جو بچپن میں کمال اتاترک کے دور حکومت میں اپنے والدین کے ہمراہ ہجرت کرکے حیدر آباد دکن آگئی تھیں۔

ابا سات بہن بھائیوں میں دوسرے نمبر پر تھے۔ ان سے بڑی ایک بہن تھیں، والد کی غیر متوقع موت پر ددھیالی رشتہ داروں نے غیر ملکی اور برادری کے باہر سے آئی بہو کو بچوں سمیت تمام جائیداد اور گھر سے بے دخل کردیا۔ اس سانحے نے کنبے کو سنبھالنے کی ساری ذمہ داری 11 برس کے رشاد پر غیر اعلانیہ طور پر عائد کردی تھی۔

ہماری اماں جب حویلی سے بے دخل ہوئیں تو سوائے چند روپوں اور کپڑوں کے کچھ ساتھ نہ تھا۔ ممبئی کے علاقے ڈنکن روڈ کی چالی میں ایک کھولی کرائے پر حاصل کی۔ ڈنکن روڈ ایک بدنام زمانہ علاقہ تھا جہاں چوری کا مال سرعام فروخت کرنے، شراب گانجا اور شباب سے لطف اندوز ہونے کی کھلی آزادی میسر تھی۔ اس علاقے میں رہنے کے باوجود ساری غلاظتوں سے محفوظ رہنا والدہ کی تربیت ہی تھی۔ ہم نے غبارے بیچے، ٹھیلا لگایا، محنت مزدوری کی۔ والدہ اور بہن گھر بیٹھے چھالیہ کاٹا کرتی تھیں۔ اس طرح زندگی کی گاڑی کھسکنے لگی۔

ایک روز اماں ہمیں ایک پارسی کے کارخانے میں لے کر گئی۔ اس کارخانے میں پاکٹ سائز شیشے بنائے جاتے تھے جو دوسری جنگ عظیم میں فوجی شیونگ کرتے وقت استعمال کیا کرتے تھے، یہیں ہماری ملاقات انڈین کمیونسٹ پارٹی کے کارکنوں سے ہوئی جن کے ذریعے ہم کیفی اعظمی، شوکت اعظمی، سجاد ظہیر، سردار جعفری اور دیگر پارٹی کے سرگرم کارکنان سے ملے۔ ان جہاندیدہ افراد کی صحبت نے ہمیں سیاست، سماجیات اور نفسیات سے آگاہی دی جس نے ہماری پوری زندگی کے دھارے کو بدل کر رکھ دیا ابا ہمیشہ اپنے مشکل وقت کی یادیں اور تجربات دہرایا کرتے تھے۔

بچپن میں شیشہ سازی سے وابستگی نے ان کے ہاتھ میں نفاست بھی پیدا کی اور کام میں مہارت بھی۔ 1954 میں ابا پاکستان آگئے یہیں اپنی خالہ زاد کو اپنا شریک سفر بنایا، یہاں بھی شیشہ سازی کے شعبے سے ہی وابستہ رہے اور چند برس میں ہی لاہور میں اپنا شیشے کا کارخانہ قائم کیا۔ کاروباری ذہن ہونے کے باوجود ابا کا پوری عمر کتاب، اخبار اور شاعری سے تعلق ایک محبوبہ کی مانند رہا جس کے دیدار کے بنا نہ ان کی صبح ہوتی نہ رات۔

امی اور ابا کی شخصیت دو مختلف سمت بہنے والے دریا کی مانند تھی جن کے کنارے کبھی نہیں ملتے، ابا سخت گیر جبکہ امی ٹھنڈ پروگرام۔ اس کے باوجود دونوں نے ایک دوسرے کو بھرپور اسپیس دی۔ امی مکمل گھریلو عورت رہیں اور ابا کی ہر ضرورت کا اپنی ذات سے بڑھ کر خیال رکھا۔

جون 2018 کی ایک شام امی کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹی تو گھر میں بھونچال آگیا۔ انھیں اسپتال لے جاتے ہوئے ابا پھوٹ پھوٹ کر روئے شاید جان گئے تھے کہ بی بی اب دوبارہ پیروں پر کھڑی نہ ہو پائے گی۔ چند مہینے تو بیٹے بہوؤں نے ان کی تیمارداری کی، اس کے بعد ابا نے یہ ذمہ داری اپنے سر لے لی جو انھوں نے چھ سال بخوبی نبھائی۔ ابا نے بی بی کے لیے وہ سب کیا جس کے لیے محمد رشاد جیسی شخصیت کے بارے میں تصور کرنا بھی مشکل تھا۔

پچھلے نومبر میں امی ابا اپنی ازدواجی زندگی کے 68 سال پورے کرچکے ہیں، آج ابا کو لیٹے ہوئے دیکھ کر محسوس ہوتاہے کہ دو صدیوں کا مسافر تھک ہار کر بستر مرگ پر ہے۔ ان دو صدیوں کی کیا کیا کہانیاں، کیسی کیسی یادیں اور طرح طرح کے کردار ان کی آنکھوں کے سامنے ایسے آرہے ہوں گے جیسے کل ہی کی بات ہو۔ ابا کا جسم ساتھ چھوڑ رہا ہے، گردن بار بار ڈھلک جاتی ہے لیکن دماغ آج بھی زیرو میٹر گاڑی کے انجن کی طرح ہے۔ زبان میں لکنت ضرور آگئی ہے لیکن پوپلے منہ سے موقع محل پر برجستہ شعر کہنے سے آج بھی نہیں چوکتے۔

ضعف میں طعنہ اغیار کا شکوہ کیا ہے

بات کچھ سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں

تین بار ابا کو ان کے ڈاکٹر پوتے نے جاتے جاتے واپس بلا لیا۔ علاج درد کا ہوتا ہے موت کا نہیں، ہم نے اپنی زندگی اپنے اصولوں پر گزاری ہے اور بھرپور گزاری ہے، کسی بات پر افسوس یا پشیمانی نہیں، زندگی ہے تو موت بھی لازم ہے۔

زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب

موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا

ابا جب بھی ذرا دیر کے لیے چارج ہوتے تو ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں شعر ضرور سناتے۔

ابا امی کے بیٹوں کی والدین کے لیے دن رات ایک کرنا شاید نئی نسل کے لیے حیران کن ہو لیکن غالباً یہ آخری نسل ہے جو والدین سے نظریاتی اختلافات رکھنے کے باوجود بھی ایسے جذبات رکھتی ہے۔

اس نے سوچا کہ کیا واقعی بچہ بوڑھا برابر ہوتے ہیں، نہیں! والدین کے لیے پیدائش کے بعد سے بچے کو پھلتا پھولتا دیکھنا ایک دلچسپ اور دلپذیر مرحلہ ہوتا ہے جبکہ بوڑھے والدین کو اولاد اپنی آنکھوں کے سامنے بے بس، لاچار اور جاتے ہوئے دیکھتی ہے جو ایک مشکل ہی نہیں دردناک تجربہ بھی ہے۔

ہم والدین میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کو نظرانداز کرتے رہتے ہیں لیکن ایک دن اچانک غور سے دیکھنے پر انکشاف ہوتا ہے کہ کہانی تو اپنے اختتام پر ہے۔

بشکریہ: وی نیوز

Check Also

Baray Maidan Ka Khilari

By Muhammad Saqib