Tuesday, 24 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Sami Ullah Rafiq
  4. Taliban Aur Pakistan Ki Position

Taliban Aur Pakistan Ki Position

طالبان اور پاکستان کی پوزیشن

کیاافغانستان میں جلد یا دیر بعد امن قائم ہوجائے گا؟ یہ امن صرف اسی صورت قائم ہوگا جب طالبان کی حکومت اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ ساتھ دنیاکے ساتھ چلنا سیکھے۔ بدلے ہوئے عالمی منظر نامے کے ساتھ ہم قدم ہوکر چلے۔ اقوام عالم کی عالمی امن کی کاوشوں میں شرکت کرے۔ بین الاقوامی برادری کے ساتھ شانہ بشانہ چلے لیکن اپنا ایک امیج بنائے اور اسےاپنی دیر پا پر امن افغانستان کی پالیسی پر چپکا دے۔ یہ نہ ہو کہ کسی قوت کے سامنے ایک مسئلے کے حل کیلئے بجائے مذاکرات کرنے کے رائفل اٹھالے اور ایک بار پھر افغانستان کو میدان جنگ بنادے اور پھر باقی طاقتیں نام نہاد امن کی خاطر اپنا اپنا حصہ ڈالتی پھریں۔ اگر یہ ہو گیا تو پھر سارے کا سارے ملبہ پاکستان پر گرے گا اور پاکستان ایک بار پھر نائن الیون کے بعد والی صورتحال کا شکار ہوجائے گا۔

نائن الیون کے بعد افغان سرزمین امریکہ، روس، ایران اور بھارت کیلئے ایک خونی کھیل کا مید ان بن گئی تھی۔ امریکہ کا موقف اور محاذ جنگ واضح تھا۔ وہ علیحدہ بات ہے کہ امریکہ اپنے اس موقف کے در پردہ کیا کھیل کھیلتا رہا لیکن اسے کوئی خاطر خواہ کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔ ایران اپنی حمایت یافتہ ملیشیاز کی افغانستان میں مالی و عسکری معاونت کرتا رہا کیونکہ ایران پراکسی جنگوں میں ایکٹو ہےاور امریکہ بھی اسے دھول نہیں چٹا سکا۔ بھارت تحریک طالبان پاکستان کو افغانستان میں ہر ممکن مدد فراہم کرتا رہا جس کا خمیازہ پاک سرزمین کے عوام اور اداروں کو بھگتنا پڑا۔ باقی بچا روس تو وہ امریکہ اور پاکستان کے ہاتھوں اپنی شکست نہیں بھول سکا۔ روس امریکہ کے افغانستان میں قدم رکھتے ہی افغان طالبانوں سے ہاتھ ملانے کی کئی بار سعی کرتا رہا اور آخر کار کامیاب ہوگیا۔ روس نے طالبان کی ہر فورم پر مدد کی جس سے ہزاروں امریکی فوجی اس جنگ کا ایندھن بنے۔ اورپھر امریکہ کیلئے افغانستان ایک دلدل بنتا چلا گیا۔

پراکسی جنگ کے اس کھیل میں سب سے زیادہ ملک جس کو نقصان پہنچا وہ پاکستان تھا۔ افغانستان میں جاری پراکسی جنگ کی آگ میں ہر ابھرتا ہوا شعلہ پاکستان کی سرزمین پر گرتا۔ ایک طرف پاکستان میں بم دھماکے ہوتے جس سے پاکستانی جاں بحق ہوتے دوسری طرف عالمی طاقتیں پاکستان کے امیج کو ہر حد تک متاثر کرتی۔ اس جنگ میں پاکستان پر ایک ایسا وقت بھی گزرا کوئی دن خودکش دھماکوں سے خالی نہ جاتا۔ پاکستان کے سول و ملٹری تعلقات کے اتار چڑھاو کے باوجوددہشت گردی کے خلاف بڑے پیمانے پر کاروائیاں کی گئی جس سےپاکستان کا امن بحال ہوا۔ ان کاروائیوں میں در پردہ اندرونی و بیرونی قوتوں کی نشاندہی بھی ہوئی اور ہمیں اپنی پالیسیاں اور گھر درست کرنے کےلیے سر جوڑ کر بیٹھنا پڑا۔ اس سے ایک روڈ میپ بھی تشکیل پا گیا جس پر عمل کے ثمرات آج بھی قائم ہیں۔

طالبان جو ایک طویل پراکسی جنگ لڑنے کے بعد افغانستان میں اقتدار پر براجمان ہیں اب ان کی کیا شناخت ہے؟ یہ وہی ماضی کےجنگجو ہیں جو صرف اپنے ایک لیڈر کی خاطر پورے افغانستان کو آگ میں دھکیل دیتے ہیں یا یہ اب مستحکم ہوکر عقل مند ہوچکے ہیں؟ عالمی برادری کی رائے طالبان کے حق میں بھی ہے اور خلاف بھی۔ پاکستان طالبان کو مذاکرات کی میز پر بٹھا کر اپنا کردار ادا کرچکا ہے۔ بھارت طالبان کو اب بھی جنگجو اور بنیاد پرست عقل و شعور سے عاری تصور کرتا ہے۔ شایدبھارتی پالیسی ساز افغانستان میں اپنی شکست ہضم نہیں کرپارہے۔ شاید ہندوستان کوافغانستان میں اپنی اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری اب گنگا میں بہتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ شاید انڈیا پاکستان کی کمر کو کمزور کرنے میں ناکام ہوچکا ہے اور کلبھوشن جیسے ایجنٹس بھارت کے چلے ہوئے وہ کارتوس ہیں جو اپنے ٹارگٹ کو مکمل طور پر ہٹ نہیں کر پائے اور بھارت کی جگ ہنسائی بنے۔

عالمی منظر نامے اور ان کے سہارے بیانیےکے درمیان پاکستان کی کیا پوزیشن ہے؟ پاکستان نے واضح کیاہے کہ پاکستان پر امن افغانستان کا خواہاں ہے۔ افغانستان میں دو دہائیوں پر محیط جنگ کا خاتمہ پاکستان کا کردار بھی ہے اور مثبت خارجہ پالیسی بھی۔ یہ ہمارے حساس اور عسکری اداروں کی جیت بھی ہے اور پر امن پاکستان ہونےکی ایک دلیل بھی۔ بھارت کو یہ بات اب سمجھ آجانی چاہیے کہ سوائے پچھتاوے کہ اب کچھ نہیں بچتا۔ شمالی اتحاد کے تتر بتر جنگجو اب دیوار کے ساتھ لگے ہوئے ہیں جو صرف بقا کی خاطر طالبان سےجھڑپیں کررہے ہیں۔ پاکستان کا افغان سرزمین پر بدلتے ہوئے حقائق کی روشنی میں یہ موقف ہے کہ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہو اور نہ ہی افغانستان میں اب شورش کی کوئی گنجائش ہے۔ پر امین افغانستان ہی پر امن پاکستان کی ضمانت ہے۔ ڈیورنڈ لائن پر اب کسی بھی جارحیت کو طالبان اور پاکستان کے باہمی اعتماد کو ٹھیس پہنچا سکتی ہے۔

روس کی پوزیشن حالیہ صورتحال پرڈھکی چھپی نہیں۔ افغانستان میں روس اور چین کے سفارت خانے ورکنگ میں ہیں۔ وہ مسلسل طالبان سے رابطے میں ہیں اور ان کو جذبہ خیر سگالی کے اشارے بھی مل رہے ہیں۔ اس سے یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ روس افغانستان میں اب اپنی غلطی سے سیکھ چکا ہے اور وہ طویل عرصہ کے لیے یہاں رہنے کا منصوبہ بنا رہا ہے۔ ماضی میں جائیں تو یہی طالبان روس کےلیے گلےکی ہڈی بن گئے تھےاور پھر روس نے انہی کو امریکہ کے خلاف استعمال کرکے اپنا حساب چکایا۔ اب وہ ان سے اپنے تعلقات استوار کر رہا ہے۔ روس چین کی طرز پر پاکستان اور دیگر ہمسایہ ممالک سے برابری کے تعلقات تشکیل پارہا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ روس سی پیک کا حصہ ہے۔ اس کا اظہار کسی نہ کسی سفارتی فورم پر ہوتا رہتا ہے۔ روس اور چین کا افغانستان کے معاملات میں مفاد اور شرکت امریکہ اور اسکے دیگر اتحادیوں کی پسپائی ہے۔

طالبان کا افغانستان میں سیاسی استحکام اور حکومتی پائیداری کسی طور بھارت، امریکہ اور دیگر قوتوں کو ایک آنکھ نہ بھائے گی۔ امریکہ حسب روایت اپنی ساری شکست کا ذمہ دار پاکستان کو ہی کہے گا۔ پاکستا ن اس امریکی روایت کو بخوبی جانتا ہے۔ پاکستان نے اس کے متبادل عین وقت پر اپنا بیانیہ دنیا کے سامنے رکھ دیا ہے جس کے دیر پا اثرات ہوں گے۔ لیکن ہمیں اس حوالے ہائبرڈ وار فیئر کے خلاف چکنا رہنا ہوگا۔ جلد یا بدیر افغانستا ن میں امن پاکستان کی اقتصادی ترقی اور علاقائی سیاست میں مددگار ثابت ہوگا۔

About Sami Ullah Rafiq

The Author is a Lecturer of English Language and Literature in a private institute. He pens various historical and socio-political topics and global developments across the globe along with his own insight.

Check Also

Molana Fazal Ur Rehman Sahib Ki Power Politics

By Amirjan Haqqani