Aaj Ke Masharti Masail Aur Unka Hal (2)
آج کے معاشرتی مسائل اور اسکا حل (2)
اب آپ دیکھ لیں ہمارے ہاں ہر کوئی حکمرانوں کی ہی بات کرتا ہے، انہی کی برائی بیان کرتا ہے۔ ہمیں ضرور حکمرانوں کی بات کرنی چاہیے، برا کہنا چاہیےمگر تب جب ھم میں خود وہ خرابیاں اور برائی موجود نہ ہو۔ جبک دراصل وہ ساری برائیاں اور خامیاں ہم میں خود بھی پائی جاتی ہیں لیکن قصور صرف حکمرانوں کا ہی گردانتے ہیں۔ باباجی نے بڑے خوبصورت انداز میں اک جامع مثال دیتے ہوئےاس بات کو یوں سمجھایا۔ عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ ان چیزوں کا بھی علم دے رکھا جو چیزیں یا اعمال لوگ گھروں میں چھپا رکھتے تھے۔
" اک مرتبہ عیسیٰ علیہ السلام کہیں سے گزررہے تھے تو راستے میں لوگوں نے اک عورت کو باندھ رکھا تھا اور اسکو پتھرمار رہےتھے، سنگسار کر رہےتھے۔ آپ علیہ السلام نے وجہ دریافت فرمائی کہ عورت کو سنگسار کیوں کرر ہےہو؟ وجہ معلوم ہونے کےبعد عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اچھا ٹھیک ہے سنگسار کرو مگر پہلا پتھر وہ مارے جس نے خود بدکاری نہ کی ہو۔ یہ سننا تھا کہ سب گھروں کو بھاگ گئے اور کوئی بھی پتھر مارنے والا نہیں رہا۔"
عین یہی کام آج ہم بھی تو کر رہے ہیں۔ ھم حکومت وقت کو / دوسرے معاشرے کے عوامین کو اعتراض کےپتھر مار رہےہیں لیکن پتھر مارنے والوں میں سی شائد ہی کوئی اک ایسا بندہ موجود ہو جو خود ان سارے اعتراضات و خرابیوں سے پاک ہوں۔ ہر وہ شخص جو اس معاشرے، ماحول اور وطن عزیز کو درست کرنے کا عزم رکھتا ہو تو اس کے لیے سب سے پہلے ہم میں سے ہر اک کو تنقید و تنقیص کے پتھر اک دوسرے کو مارنا چھوڑنا ہونگے۔ اور جو لوگ مارنا چاہتے ہیں تو اک لمحےکے لیے خود انہیں اپنی گریبان میں جھانک کر دیکھنا ہوگا کہ جو پتھر دوسرے کو مارنے جا رہے ہیں وہ کہیں خود اسمیں موجود تو نہیں۔ وہ خودشریعت اور مملکت کے تمام قوانین و اصول کی پاسداری کرتا ہے؟
کیا یہ باعث شرم و عار کی بات نہیں کہ جو خرابی و خانی ہم میں خود موجود ہوں مگر دوسروں پہ تنقید کرتے پھریں۔ اسکےمتعلق تو اللہ قرآن پاک میں فرماتا ہے۔" لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَاتَفْعَلُوْن۔ تم ایسی بات کہتے ہو جو خود نہیں کرتے ہو۔ (مفہوم)"
جاہل کا مطلب یہ نہیں کہ جو پڑھنا، لکھنا نہ جانتا ہو اور ظالم سے مراد بھی فقط یہ نہیں جو ہاتھ سے کسی کو تکلیف پہنچاتاہو ایذا پہنچاتا ہو، بلکہ وہ شخص ظالم و جاہل کہلاتا ہے جو ایسی خرابی و خامی کے بارے میں بات کرتا ہے جو کہ خوداسمیں وہی خرابی موجود ہو۔ اور یہی جہل و ظلم معاشرے میں بے چینی و اضطرابی کا باعث بنتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں اعتماد کی فضا ختم ہو چکی ہے۔ وہ چاہے آپس میں بھائیوں کا ہو، گلی محلے والوں کا ہو، دوکانداروں کا ہو، عدالتی سطح پہ ہو، اداروں، حکومت، مولوی و علماء غرض کسی بھی سطح پہ ہو لوگوں کے مابین سےاعتماد اٹھ چکا ہے۔ اوربد قسمتی سے ہمارے ہاں اس مسئلے میں سوشل میڈیا آگ پہ ہوا آکسیجن کی مانند کام دیتاہے۔ جو کہ معاشرے کو آئے روز نت نئےمسائل سے جوڑتا جا رہا ہے۔ ہمارے ہاں حال ہی میں کوئی اک عشرہ سال پہلے ہی اک نئی اور انتہائی موزوں معاشرتی بیماری جنم لےچکی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ہی آگ کی طرح پورے معاشرتی جنگل میں پھیل گئی ہے۔ اوروہ بیماری ہے باہم مابین موازنہ، اک دوسرےکے ساتھ باہم موازنے کو جگہ دے چکے ہیں۔ مثلا صحت، عمر، اہلیت، قابلیت، رزق، طاقت وغیرہ میں باہم موازنے کو بیچ میں شامل کر دیا جبکہ یہ سب تو نصیب سے عطا ہوتی ہے۔
تو منشاء الہی کے عین مطابق ہوتا ہے اور اس کا ذکر تو اللہ پاک قرآن میں واضح طور پر بیان کر چکا ہے۔ کہ میری مرضی جسکو کشادہ رزق دوں، کس کو تنگدستی دوں، کسی کو عزت دوں کسی کو ذلیل کروں، کس کو اقتدار دوں کسی کو کچھ بھی نہ دوں، کس کو زندہ رکھوں کسی کو موت دوں یہ تو فقط اللہ جل شانہ کے منشاء کے مطابق ہی ہوتا ہے۔ کوئی مخلوق ان میں سے کسی بھی چیزکو خود سے پیدا نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی سے چھین سکتا ہے۔ ہاں مگر اللہ فرماتا ہے میں کسی کا مخنت ضائع نہیں کرتا۔ تو انسان اپنی محنت کے بل پہ اللہ کریم کے عطا کردہ انعامات کو پالش کر کے اچھا یا برباد کر سکتا ہے۔
موازنہ کرنے سے اصحاب کرام علھیم اجمعین سے اتنا اجتناب فرماتے تھے کہ اک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں اک شخص دو چوبارے والی عمارت تعمیر کر رہا تھا تو عمر رضی اللہ عنہ نے اس شخص سے کہا کہ یہ اوپروالی منزل ڈھادو۔ اس شخص نے کہا اے امیر المومنین میں حلال کے پیسوں سے بنا رہا ہوں۔ عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا مجھے معلوم ہے لیکن جب تم یہ عمارت بنالوگے تو کل کو لوگ اس کو دیکھ کر آپ سے اپنا موازنہ کرینگے اور خودایسی ہی منزل تعمیر کرنے کی کوشش کرینگے بھلے حرام سے ہی کیوں نہ ہو۔
جبکہ آج ہمارے ہاں اس کم عرصے میں یہ وباء خون کی طرح ہماری زندگیوں میں شامل ہو چکی ہے۔ اور جب بھی کہیں باہم مابین موازنہ پیدا ہوجائے تب بے چینی اور اضطراب اپنا گھر کر لیتی ہے۔ وہ معاشرہ سکون سے محروم ہو جاتا ہے، مایوسی اور احساس کمتری پیدا ہوجاتی ہے۔ اسی طرح موازنہ کے عین موافق ملتا جلتا اک اور رویہ بھی ہے جسکو مقابلہ بازی سے جانا جاتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں موازنے کے ساتھ ساتھ مقابلہ بازی کو بڑے گہرائی اور گرم جوشی سے اپنا چکا ہے۔
آقا علیہ الصلوات والسلام کا فرمان مبارک ہے " کہ قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب ننگے پاؤں بکریاں چرانے والےاک دوسرے سے عمارتیں تعمیر کروانے میں مقابلہ شروع نہ کر دیں۔ اور ھم سب انہی کی اولاد تو ہیں۔ آج دیکھ لیں، دوست ہو، رشتہ دار ہو، خاندان کے اندر چھوٹے ہوں، بڑے غرض عورتیں ہوں سب باہم اک دوسرے سے آگے نکلنےمیں جت گئے ہیں۔ اک لمحے کے لیے سوچیں ذرا کہ مقابلہ بازی کو قیامت کے آنے سے نتھی کیوں کر دیا گیا ہے۔ اس لیے کہ مقابلہ بازی میں رحم اور مدد کا عنصر ختم ہو جاتا ہے۔ مقابلہ سے انسانی صفات میں احساس ختم ہو کر خود غرضی اپنا جگہ بنالیتی ہے اور جب کسی زی روح میں احساس کا مادہ ختم ہو جاتا ہے وہ شرف خلقت کھو دیتا ہے۔ مقابلہ بازی میں ہر وقت بےجا ہارنےکاخوف اور خزن دل میں موجود رہتا ہے، جو اک اذیت ناک مرحلہ ہوتا ہے۔ جو مقابلہ بازی کی اس چنگل میں پھنس جائے وہ پھر روز اس قیامت سے گزرتا ہے۔ اور اس عذاب کو قرآن "عذاب مھین " یعنی " باریک عذاب" سے ذکر فرماتا ہے۔ اور معاشرتی مسائل کی آڑ میں ہمارے ہاں اک آخری اور بنیادی خرابی یا کمی یہ پائی جاتی ہے کہ ہم نے بحثیت فرد واحد ہویا معاشرہ ہو صلہ رحمی کو ترک کر دیا ہے۔ جبکہ محبوب پاک کا فرمان مبارک ہے " جو صلہ رحمی اختیار کرتا ہے وہ کبھی پریشانی سے دوچار نہیں ہوگا۔ کبھی دقت اٹھانی نہیں پڑھے گی۔" اب آپ خود اندازہ لگائیں جو صلہ رحمی کو ترک کرے گا وہ تو ہر وقت پریشانی میں ہی رہے گا۔ آج کے ہمارے معاشرتی مسائل کا سب سے بڑاحل اپنے رحم کے رشتوں کو سنوارنے میں ہے، باہم نبھانے میں ہے۔ اللہ جل شانہ کا فرمان مبارک ہے "اگر صلہ رحمی کو اختیار نہیں کروگے تو تمہارے پچھلے اعمال بھی ضائع کردونگا۔"
اس حکم کے ضمن میں خالق کائنات ہم سے اپنی محبت کا انوکھا اظہار فرمارہا ہے۔ غورفرمائیے مرے رشتہ داروں سے ملنے سے خالق کائنات کو کیا ملے گا۔ لیکن رشتہ دار و عزیز سے ملنے سے آپ کے دکھ درد میں کمی کرنا مقصود ہے۔ تاکہ آپکو اکیلےپن اور تنہائی کا احساس دکھ درد کو اور بڑھا نہ دے۔ تبھی تو معاشرتی مسائل کو حل کرنے کے لیے سب سے اہم اور انتہائی بنیادی قدم صلہ رحمی کو اپنانا ہے اختیار کرنا ہے۔ یعنی شروعات ہی صلہ رحمی سے کرنی چاہئیے تاکہ ہمار معاشرہ جنت نذیر بن جائے اور اسکے لیے کوئی دوسری مخلوق نے نہیں آنا بلکہ ہم ہی خود اس کو جنت نذیر بنائیں گے۔