Ye Andaz e Musalmani Hai (2)
یہ اندازِ مسلمانی ہے (2)
خیر میں سیول پہنچ گیا۔ وہاں ایئرپورٹ پر سے ٹیکسی لے کر شہر گیا لیکن طوفان اور موسم کی خرابی یا شائد سیزن کی وجہ سے مجھے ہوٹل نہ ملا حالانکہ ابھی میرے پاس دو دن تھے۔ لیکن میں سوچتا ہوں میری مکاری کی وجہ سے مجھے وہاں آسانی نہیں ملی۔ اور مجھے ہر ہوٹل سے ایک جواب ملا کہ آپ بہتر ہے کہ آج ہی کوریا سے نکل جائیں آگے مزید مشکلات ہو جائیں گی۔ خیر میں نے 5 گھنٹے سیول کی سڑکوں اور ٹیکسی کے زریعے جتا شہر دیک سکتا تھا گزارے۔ اور مجھے بتایا گیا تھا کہ رات 12 بجے امارات کی ایک فلائیٹ دبئی کے لئے جائے گی اس پر ایک چانس لے لوں۔ سیول میں دو ایئرپورٹ ہین۔ ایک شائد اندرون ملک جہازوں کے لئے تھا جس پر میں جیجو سے آیا تھا اور دوسرا انٹر نیشنل فلائیٹس کے لئے۔ تو میں نے ٹیکسی والے کو اندرون ملک اڈے کا سمجھایا۔ اس نے بٹھا لیا۔ اور روانہ ہوا۔
راستے میں مجھے خیال آیا کہ اسے ایک مرتبہ ٹکٹ دکھا دوں۔ شائد اسے بات سمجھ نہ آئی ہو۔ اس نے جب میری ٹکٹ دیکھی تو ٹیکسی ایک جانب روک دی۔ کچھ دیر غیر یقینی سر ہلایا اور پھر مجھے کچھ غصے میں کہا۔ اور چل پڑا۔ یہ ہوائی اڈا دوسرے ہوائی اڈے کے بالکل مخالف سمت میں تھا۔ خیر اس نے کچھ دیر اپنا میٹر بند رکھا اور ایک بڑی شاہراہ پر آ کر پھر سے میٹر آن کر دیا۔ میں نے اس سے فری ہونے کی کوشش کی تو اس نے ہاتھ سے اشارہ کر کے خاموش کرادیا۔ جب ہم انٹرنیشنل اڈے پر پہنچے تو اس نے مجھ سے جو میٹر پر پیسے تھے وہ چارج کئے اور جو وہ میٹر بند کرنے اور سڑک پر آنے کے تھے وہ نہیں لئے۔ میں نے جھک کر شکریہ ادا کیا اس نے بھی مسکرا کر مجھے خدا حافظ کا اشارہ کیا۔ مین پھر سوچ رہا تھا کہ اگر پاکستانی ٹیکسی ہوتی تو آج اس کی چاندی ہو گئی ہوتی۔
امارتی کاونٹر پر گیا تو وہ بند تھا۔ کیونکہ وہاں کاونٹر فلائیٹ سے کچھ دیر قبل ایکٹو ہوتا ہے۔ میں پہلا شخص تھا جو اس خاتون سے ملا جو تھی تو کورین مگر کاونٹر امارات کا تھا۔ اس کو میں نے روایتی ڈرامہ بازی چہرے کی مایوسی سے کہا کہ میں کتنی مشکل سے یہاں پہنچا ہوں اور آج ہی دوبئی جانا چاہتا ہوں۔ اس نے بہت تحمل سے میری بات سنی۔ مجھ سے نام پوچھا کمپیوٹر پر کچھ دیر کام کیا۔ اور مجھے کہا۔
مسٹر خان! فلائیٹ بالکل پیک ہے۔ مشکل ہے ان حالات میں کوئی بھی سیٹ کینسل ہو۔ لیکن میں آپ سے گزارش کروں گی کہ فلائٹ سے آدھ گھنٹہ قبل تک انتظار کر لین۔ شائد کوئی چانس لگ جائے۔ میں فارغ ہی تھا۔ میں نے کہا میں کھانا کھا کر آتا ہوں۔ اس نے اعتبار دلایا کہ میں آرام سے فلاں وقت تک آجاوں۔ مجھے آرام نہ آیا اور میں دور کرسی پر بیٹھ کر کاونٹر تکنے لگا۔ کچھ اور لوگ بھی آئے جنہوں نے چانس کا موقع حاصل کرنے کا کہا ہم کل 8 افراد تھے جن میں 3 پاکستانی اور باقی غیر ملکی تھے۔ پاکستانیوں نے اپنی روایتی اثر اندازی شروع کر دی اور کاونٹر کو گھیر لیا۔ مجھے پریشانی شروع ہو گی۔ اور میں اس خاتون کے پاس چلا گیا۔ اس نے مجھ سے پوچھا مسٹر خان آپ نے ڈنر کر لیا۔ میں نے کہا مجھے پریشانی ہے کہ میری جگہ کوئی اور نہ چلا جائے۔ کیونکہ ہم 8 لوگ چانس پر ہیں۔ تو اس کا پھیکا چہرہ ہنسی سے سرخ ہو گیا۔ اور بولی آپ بے فکر ہو کر ڈنر کریں ابھی بہت دیر ہے اور کوئی ٹکٹ ابھی تک کینسل نہیں ہوئی۔ اور ویسے بھی آپ نے سب سے پہلے اپنا نام کا انداج کرایا ہے۔ تو بے فکر رہیں۔
میں بادل نخواستہ برگر لینے چلا گیا۔ اور حقیقی طور پر اپنے آپ کو اس بات پر راضی کر چکا تھا کہ یہ خاتون مجھے دھوکہ دے رہی ہے جب میں کاونٹر سے دور ہو جاوں گا تو یہ اپنے من چاہے مسافر کو سہولت فراہم کر دے گی۔ خیر جلدی سے برگر لیا اور کاونٹر کے سامنے آ کر کھانے لگا۔ رش بڑھتا جا رہا تھا اور اب چانس کے مسافر 12 یا13 ہو چکے تھے۔ اور مجھے اپنا جانا معدوم نظر آ رہا تھا۔ اچانک اس خاتون نے اعلان کیا کہ چانس والے مسافر کاونٹر پر آجائیں۔ جنہوں نے کاونٹر کو گھیرے میں لے لیا وہ پاکستانی اور عربی تھے۔ باقی سب سکون سے قطار بنانے کو پریشان ہو رہے تھے۔ مجھے پہنچنے میں کچھ دیر ہوئی تو اسپیکر پر اس خاتون کی آواز گونجی وہ میرا نام پکار رہی تھی۔ میں دوڑ کر سامنے پہنچا تو اس نے ہم سب کو مخاطب کر کے کہا۔ کہ بدقسمتی سے یا خوش قسمتی سے صرف ایک مسافر ڈراپ ہوا ہے اور ہمارے پاس صرف ایک ٹکٹ ہے آپ 13 لوگ ہیں۔ سب سے پہلا حق مسٹر خان کا ہے۔ اگر وہ انکار کریں گے تو اس کے بعد مسٹر فلاں۔ اور مجھ سے مخاطب ہوئی مسٹر خان آپ پریشان ہو رہے تھے۔ کیا آپ یہ ٹکٹ حاصل کرنا چاہیں گے۔
میں نے شدید طریقہ سے اقرار کیا۔۔ اس نے باقی تمام لوگوں کو سپاٹ سا انکار کر کے ان سب سے معذرت کر لی۔ مجھے ٹکٹ دیا۔ مجھے ہاتھ سے پکڑا اور وائیرلیس پر ایئرپورٹ پر چلنے والی الیکٹررک موٹر منگوا کر مجھے سوار کیا۔ بہت فاصلہ تھا۔ جب میں جہاز کے دروازے پر پہنچا تو پسینے سے شرابور تھا۔ اور ہر گیٹ سے مجھےاس گیٹ پر کھڑے عملے نے یوں بھگا بھگا کر جہاز تک پہنچایا۔ جس طرح گاوں کی گلیوں کے کتے اپنے اپنے علاقے سے نکال کر اگلی گلی کے کتوں کی سپرد کرتے ہوئے گاون سے باہر مسافر کو نکال کر آتے ہیں۔ جہاز پر عربی ایئرہوسٹس تھی۔ اس نے نیم ناراضگی میں خوش آمدید کہا اور سیٹ تک گائیڈ کیا۔ یوں میں کوریا سے روانہ ہوا۔
جب میرے اوسان بحال ہوئے تو میں ایک گہری اور دل گرفتہ سوچ میں پھنس گیا۔ اپنے رویے پر غور کرتا رہا کہ کس طرح آج میں نے انسانی جذبات سے کھیلا۔ کوریائی ٹیکسی ڈرائیور، ہوٹل کے عملے اور ایئرپورٹ کے عملے کے اصولوں، اخلاق اور مدد کو سوچتا رہا۔ اور یہ سوچتا رہا کہ اگر یہ سچویشن پاکستان میں کسی کو پیش آتی تو اس کے ساتھ کیا ہوتا۔
اس کا جواب میں آپ کے تجربات اور ظرف پر چھوڑتا ہوں۔
کیا کہا! بہرِ مسلماں ہے فقط وعدۂ حور
شکوہ بے جا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
عدل ہے فاطرِ ہستی کا ازل سے دستور
مُسلم آئِیں ہُوا کافر تو مِلے حور و قصور