Sohail Warraich Ka Misr Mein Aik Din Geo Ke Sath
سہیل وڑائچ کا مصر میں ایک دِن جیو کے ساتھ
سہیل وڑائچ ایک نامور صحافی ہیں جن کی صحافتی زندگی کے کئی اہم پہلو ہیں۔ ہمارے دور میں ان کی وجہ شہرت مشہور زمانہ پروگرام "ایک دن جیو کے ساتھ" اور اس میں اپنا ایک مخصوص انداز بیان ہے۔ آج بہت سالوں بعد اتوار 28 جنوری 2024 کو غلطی سے جیو ٹی وی لگ گیا تو ان کا پروگرام "مصر میں ایک دِن جیو کے ساتھ" آ رہا تھا۔
میں سہیل ورائچ کی علم دوستی کا معترف ہوں، پڑھے لکھے شخص کی علامت یہ ہے کہ وہ بہت ہلکے پھلکے انداز میں بہت سے رازوں سے پردہ اٹھا دیتا ہے۔ جس کے لئے ناظر کو بھی صاحب ذوق و علم دوست ہونا شدید ضروری ہے۔ مندرجہ بالا پروگرام میں اہرام مصر، فرعونوں کے طرز معاشرت، کپڑے، تابوت اور ظروف دکھائے گئے۔ ہو سکتا ہے کہ ان کی بہت سی باتوں سے میرا شدید اختلاف ہو خاص طور پر جب وہ مصری تہذیب کا موازنہ موہنجوداڑو اور انڈس تہذیب سے کر رہے تھے، لیکن جس بات نے مجھے سوچنے پر اور تحقیق پر مجبور کیا وہ یہ کہ مصری آج سے کم وبیش 7 ہزار اور کم سے کم 5 ہزار سال قبل جب کہ ابھی کوئی موجودہ الہامی کتب (تورات، زبور، انجیل اور قران)کا وجود ہی نہیں تھا تب وہاں کی عوام پہنے کے کپڑوں میں لینن، سوتی کپڑا اور موتیوں سے بنا کپڑا جسکے نیچے وہ باریک ریشم یا لینن پینتے۔
مرد کپڑوں میں ریشم اور سفید، سبز اور نیلا سوتی اور موسمی کپڑا استعمال کرتے۔ باریک کھال، موٹی بالوں والی کھال جسے (فر) کہتے ہیں اور پیپرس جو کہ نیلا کے اطراف میں ایک پودا تھا جس سے کاغذ اور باریک سوتی نما کپڑا تیار کیا جاتا تھا۔ یہی پیپرس کی وجہ سے کاغذ کو پیپر کہا جاتا ہے جو کم وبیش 6 ہزار سال قبل مصری استعمال کرتے۔ اس زمانے کی خواتین مصنوعی بالوں کی وگ، یا سونے اور دیگر تاروں اور موتیوں سے مزین مصنوعی بال لگایا کرتی تھیں۔
ان کے بادشاہوں کے پہننے کے سینڈل کسی طرح بھی آج کے جدید جوتوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ جبکہ ان کے بادشاہ TUT جو کہ ایک ٹانگ کی معذوری کی وجہ سے مخصوص جوتا پہنا کرتا جس میں اس کی معذوری چھپ جاتی اور اس کی تکلیف کو کم کرتا۔ اس زمانے میں تمام رنگ مصنوعی طور پر تیار کئے جاتے۔ جس میں پیلا رنگ اور سونے سے بنے جوتے صرف بادشاہ اور بڑے راہب و پجاری پہنتے اور خوبصورتی کے لئے اپنی پیروں کی انگلیوں پر بھی سونے کی ٹوپی نما انگوٹھیاں پہنتے، سبز خوشحال لوگ اور نیلا رنگ بادشاہوں اور امیر لوگوں کی محفلوں میں برتنوں، کپڑوں، زیور اور ان کی پینٹنگز میں استعمال ہوتا۔
یہ کم وبیش 5 ہزار سال سے سات ہزار سال قبل کا مصر ہے۔ نبی کریمﷺکی آمد سے قبل یعنی کم وبیش 1500 سال قبل آمد مصطفٰی کریمﷺ عرب تاجروں کا تجارت کی بڑی تمام شاہراہوں پر اجارہ داری قائم ہو چکی تھی۔ خصوصی طور پر افریقی ممالک میں عرب تاجروں کا کنٹرول تھا اور ان کی وجہ سے اس شاہراہ کو شاہراہ بخور (ایک خوشبو) کے نام سے موسوم کیا گیا۔ اسی طرح دیگر دو بڑی تجارتی شاہراوں (شاہراہ ریشم اور مصالحوں کی شاہراہ) کو عرب تاجروں نے عرب بندرگاہوں سے لیکر، سلطنت روما، (رومن ایمپائیر) سلطنت فارس (پرشین ایمپائر) اور چین میں اپنی تیز ترین تجارتی سرگرمیوں اور مختصر ترین روٹ جو عرب علاقے میں سے ہو کر گزرتا تھا اپنی ایمانداری اور بہترین تجارتی پلاننگ سے قابو کیا ہوا تھا اور اس دور کی جدید تریں تہذیب مصر سے خوراک اور اناج کی تجارت کرتے۔
چین سے ریشم مصر اور دیگر ممالک کو پہنچاتے اور ہندوستان سے آنے والے مصالحہ جات کو رومن سلطنت اور دیگر ممالک تک پہنچاتے۔ ایک اندازے کے مطابق جس قافلے کو بچانے کے لئے ابوسفیان نے قریش کو تیار کیا تھا جس کے نتیجے میں جنگ بدر ہوئی اس قافلے میں موجود سامان کی قیمت کم وبیش ایک ہزار اونٹ تھے جن پر کم از کم پچاس ہزار دینار (دو سو ساڑھے باسٹھ کلو سونے) کی مالیت کا سازو سامان بار کیا ہوا تھا جو آج کی قیمت کے مطابق 4,951,210,000 یعنی کم و بیش 5 ارب روپے کی مالیت رکھتا تھا اسکے علاوہ ایک ہزار اونٹوں کی قیمت جدا ہے۔
یہ بات ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا کے سب سے زیادہ امیر ترین اور جدید اشیاء اور فیشن کا استعمال کرنے والی تاجر برادری ہوتی ہے۔ جو دنیا کے مختلف ممالک پھر کر دنیا کے جدید ترین شہروں اور ان میں استعمال ہونے والے کپڑے، جیولری، پرفیوم اور فیشن کو استعمال بھی کرتے ہیں اور اس کی سمجھ بوجھ بھی رکھتے ہیں۔ عرب کے بڑے ترین تاجروں میں حضرت خدیجہ سلام اللہ علیہا، حضرت عثمانؓ، حضرت ابوبکر صدیقؓ، حضرت عبدالرحمان بن عوف اور حضرت ابولعاص (داماد رسول) تھے جو انٹرنیشنل سطح پر تجارت فرماتے اور حضرت خدیجہ کا سامان تجارت تنہا پورے قریش کے سامان کے برابر ہوتا جس کا لیں دیں آقاﷺ عرب کی بندرگاہوں اور شام اور دیگر علاقوں میں فرماتے۔ یعنی جو لوگ نبی کریمﷺکے ابتدائی ساتھی بنے وہ اس وقت کے عرب تاجروں کی بھی elite class یعنی ان میں بھی بڑے تاجروں تھے۔
ان تاجروں میں سے اکثر سونے کا استعمال عام کرتے۔ ریشم اور اطلس کے کپڑے پہنتے اور خواتین باریک ترین دیبا و اطلس کا استعمال کرتیں۔ اس وقت جس ریشم کا استعمال عرب میں ہوتا وہ انگوٹھی کے چھلے میں سے پورا سوٹ گزر جاتا اتنا ملائم اور باریک اور اعلی ریشم استعمال ہوتا اور چمڑے کے جوتوں کے علاوہ باریک کھال کے موزے استعمال کئے جاتے۔ خوشبو اس قدر اعلی استعمال ہوتی کہ جس گلی سے کوئی تاجر گزرتا اس کی خوشبو سے پہچانا جاتا کہ فلاں شخصیت کا گزر یہاں سے ہوا ہے۔
نبی کریمﷺکو جو تلوار ان کے دادا کی طرف سے وراثت میں ملی تھی اس پر ہیرے جواہر و موتی لگے ہوئے تھے۔ اسی لئے جب اسلام آیا تو نبی مکرم نے سب سے پہلے نمود ونمائش، سونا اور ریشم پر پابندی لگائی کہ اس نے آج کے دور کی طرح لوگوں کو امیر و غریب کے طبقہ میں بانٹ دیا تھا نبی کریمﷺ نے ان امیر ترین تاجروں کو معاشرے کے غلاموں کے ساتھ بٹھا دیا اور اس ایثار پر جنت میں ان سے ریشم، اور سونے کے کنگنوں، اور بلند وبالا عمارتوں (ملٹی اسٹوری بلنڈنگز) کا وعدہ کر دیا تاکہ ان امیروں کے مال میں غریبوں کو حصہ مل سکے اور معاشرتی ناہمواری ختم ہو۔ پھر نجانے کب ہمارے مسلمان اسکالرز اور علماء کرام نے ایک غریب ترین، غیر مہذب، اجڈ بدبودار عرب کو ڈھونڈ نکالا جن کو نہ اردگرد کی خبر تھی اور نہ خود کی خبر جن کے پاس سلے ہوئے کپڑے تھے نا ہی کھانے پینے کے برتنوں کا ڈھنگ، حالانکہ آج کسی بھی انٹرنیشنل تاجر معاشرے کو آپ دیکھ لیں ہر گھر کی چھت پر ایک جیٹ جہاز، ہر طرح کا پرتعیش گھر و سواری موجود ہوگی۔
اگر 7 ہزار سال قبل کا مصری معاشرہ رنگوں، جیولری، جوتوں اور فیشن میں اتنا آگے تھا کہ آج فرعون کے جوتوں کا ڈیزائن یورپ بنا کر سب سے مہنگے داموں بیچتا ہے تو عرب میں ہم کیوں صحابہ کرام اور نبی کریمﷺ سے منسوب وہ اشیاء دکھاتے ہیں جو کہ 1400 سال تو کیا 7 ہزار سال قبل بھی جدید ترین معاشرے کے لئے قابل قبول نہیں تھیں اور ہم اور آپ یہ کسی تصور کر سکتے ہیں کہ نبی کریمﷺ، صحابہ کرام اور صحابیات کرام جیسی نفیس ترین ہستیاں، ایسی بے ڈھنگی اور بے جوڑ اشیاء کا استعمال کریں فی جبکہ وہ اپنے زمانے کی جدید ترین بین الاقوامی معاشرت کو بغور تجربہ کر چکے تھے اور ہجرت حبشہ ایک بین الاقوامی سفر تھا اور حبشہ ایک بین الاقوامی منڈی جہاں ابوسفیان، حضرت عثمان، حضرت جعفر جیسی ھستیوں کا بادشاہ کے دربار میں آنا جانا تھا۔
خدا کے لئے ایک جاہل، اجڈ اور مفلس سلام کے تصور سے باہر آ کر ایک جدید ترین اسلام کی بنیاد رکھیں جس میں ہماری سنت نبی کریمﷺ کی ان تعلیمات پر ہو جس میں ایثار اور فقر تو ہو لیکن ذلت، جہالت اور محتاجی کا شائبہ تک نہ ہو کیونکہ اسلام دنیا کا جدید ترین اور نیچرل مذہب ہے جو ارتقائی عمل کا حامل ہے۔
فرمانِ مصطفےٰ ﷺ ہے: "اِنَّمَا اَنَا قَاسِمٌ وَاللَّهُ يُعْطِي" یعنی میں ہی تقسیم کرنے والا ہوں اور اللہ ہی عطا فرماتا ہے۔ (بخاری، ج1، ص42، حدیث: 71)
اور یہ عمل روز حشر کے بعد تک بھی جاری رہے گا۔۔