Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Jashan e Eid Milad Un Nabi Kareem

Jashan e Eid Milad Un Nabi Kareem

جشن عید میلاد النبی کریمﷺ

آقا کی آمد کا جشن میرے لئے عید سے بہت بڑا ہے۔ کیونکہ، عید کا حکم واجب ہے اور عید کا منانا سنت ہے، جبکہ نبی کی ولادت پر سلام اور شکر فرض ہیں۔ قران مجید میں اللہ کریم نے انبیاء کی ولادت والے دن پر سلام فرمایا ہے اور وفات کے دن پر بھی سلام فرمایا۔

وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا۠(سورہ مریم)

ترجمہ:اور سلامتی ہے، اس پر جس دن پیدا ہوا اور جس دن مرے گا اور جس دن زندہ اٹھایا جائے گا، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے حضرت یحیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی ولادت کے دن ان پر سلام بھیجا، اس سے معلوم ہو اکہ نبی عَلَیْہِ السَّلَام کی ولادت کے دن ان پر سلام بھیجنا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے۔ قرآن میں اگر حضرت عیسیؑ کی پیدائش پر حضرت یحییؑ کی پیدائش اور وفات پر اللہ کریم سلام فرماتے ہیں، تو امام الانبیاء کا مقام کیا ہوگا۔

دوسرا یوم عید کا تصور بھی حضرت عیسیؑ کی قوم کے لئے سورہ مائدہ سے لیا گیا ہے کہ عید کا دن کسی نعمت کے جواب میں مومنین کا یوم تشکر ہوتا ہے۔

قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللہُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآىٕدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَۚ-وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ(۱۱۴)

ترجمہ: عیسٰی ابن مریم نے عرض کی اے اللہ اے رب ہمارے ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار کہ وہ ہمارے لیے عید ہو ہمارے اگلے پچھلوں کی اور تیری طرف سے نشانی اور ہمیں رزق دے اور تو سب سے بہتر روزی دینے والا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ جس روز اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت نازل ہو، اُس دن کو عید بنانا، خوشیاں منانا، عبادتیں کرنا اور شکرِ الٰہی بجالانا صالحین کا طریقہ ہے۔

عید لغت میں بازگشت کے معنی میں ہے اسکا مادہ عود ہے، لہذا وہ دن جس میں قوم کی مشکلات ختم ہو جاتی ہیں اور خوشیوں کی طرف اسکی بازگشت ہوتی ہے، ایسے دن کو عید کہا جاتا ہے۔ جیسا کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ارشاد منقول ہے کہ"جس دن ہم سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کا کوئی کام سرزد نہ ہو ہمارے لیے وہ عید کا دن ہے۔ اب ہر نعمت پر شکر کا اظہار عید ہے تو اللہ کریم قرآن میں نبی کریمﷺکے پیدائش یا مبعوث ہونےکو مومنین پر اپنا احسان بیان فرماتے ہیں۔

لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ یَتْلُوْا عَلَیْهِمْ اٰیٰتِهٖ وَ یُزَكِّیْهِمْ وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَۚ-وَ اِنْ كَانُوْا مِنْ قَبْلُ لَفِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ(۱۶۴)

ترجمہ: بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا، جب ان میں ایک رسول مَبعوث فرمایا، جو انہی میں سے ہے۔ وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے، اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ اور آپ جانتے ہیں کہ اللہ کے کئے ہوئے احسان کا شکر اور شکریہ سب سے بڑی عید ہے۔

تو جنہوں نے ہمیں اندھیروں سے نکال کر نور نصیب کیا ان کی آمد پر شکر خداوندی و سلام عین عبادت ہے۔ اور ناشکری باعث عذاب الہی۔ ہم جانتے ہیں من و سلوی بھی ایسا ہی احسان تھا، جس کی بنی اسرائیل نے ناشکری کی تو پھر 40 سال ذلت ان کا نصیب رہا۔ یہی" من" لفظ اللہ کریم نے مومنین پر احسان کے لئے استعمال فرمایا ہے۔ اب ایک بات اور سن اور سمجھ لیں کہ عید کون سے دن ہو گی یہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا۔

جسے ہم مانتے ہیں۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ اہل مدینہ دو دن بہ طور تہوار منایا کرتے تھے، جن میں وہ کھیل تماشے کیا کرتے تھے، رسول کریم ﷺنے ان سے دریافت کیا فرمایا، یہ دو دن جو تم مناتے ہو، ان کی حقیقت اور حیثیت کیا ہے؟ یعنی اب تہواروں کی اصلیت اور تاریخی پس منظر کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ ہم عہد جاہلیت میں (یعنی اسلام سے پہلے) یہ تہوار اسی طرح منایا کرتے تھے۔

یہ سن کر رسول مکرمﷺ نے ارشاد فرمایا، اللہ تعالٰی نے تمہارے ان دونوں تہواروں کے بدلے میں تمہارے لیے ان سے بہتر دو دن مقرر فرما دیے ہیں، یوم (عید) الاضحٰی اور یوم (عید) الفطر۔ (ابن ماجہ اور سنن ابی داود) جبکہ نبی کی پیدائش پر کیا عمل ہونا چاہئے یہ اللہ نے ہمیں سمجھایا ہے۔ چونکہ یہ قرانی حکم ہے تو یہ عین فرض ہے، جس پر دو انبیاء کی پیدائش کی گواہی دی گئی ہے۔ لہذا شرعی لحاظ سے یہ فریضہ شرعی بن جاتا ہے۔

کہ نبی کی امد پر سلام و شکر ادا کیا جائے۔ اگر دیگر انبیاء کے ایام مولود پر سلام ہے تو امام الانبیاء ﷺ تو اس کے سب سے زیادہ مستحق ہیں۔ کیونکہ اگر آقاﷺ نہ ہوتے تو کون عید مناتا یا یہ جانتا کہ کب عید منائی جائے، روزے رکھتا، کہاں کعبہ ہوتا کہاں کوئی مدینہ کہلاتا۔ یہ سب بہاریں یہ سب امیدیں نبی کریمﷺکے آمد کی محتاج تھیں۔ آپ آئے تو دنیا میں اندھیروں سے اجالا ہوا تو مقام شکر بھی اور مقام سلام بھی۔

لیکن ان سب باتوں کو سمجھنے کے لئے مطالعہ بہت ضروری ہے، جن کا مطالعہ اور علم انہیں یہ دن یہ ساعتیں منانے کی اجازت نہیں دیتا انہیں اپنی سوچ کے مطابق عمل کرنا چاہئے، لیکن جو اس عید کو منانے کے خواہش مند ہیں، انہیں اس عید کے تقاضوں کی بھی پاسداری کرنا ہو گی۔ کیونکہ کائنات کی عظیم ہستی کے پیدائش کے دن پر رب سلام کا حکم دیتے ہیں اور مومنین کو شکر کا حکم دیتے ہیں۔

یہ یوم اتباع نبی کریمﷺ ہے نہ کہ لغو اور واہیات رسوم ادا کرنے کا دن، شور شرابے اور عوام الناس کو تنگ کرنے کا دن۔ یاد رکھنا چاہئے یوم میلادالنبی باقی ایام میں اسی ادب و احترام اور وہی درجہ رکھتا ہے۔ جیسا نبی کریمﷺ کا مقام اور درجہ دیگر انبیاء کرام میں ہے۔ لہذا تقاضہ ادب ہے کہ اگر عید تین دن ہے، تو میلاد النبی کو 30 دن بطور ماہ شکر و سلام منایا جائے۔

کیونکہ دیگر انبیاء کے یوم میلادالنبی اور وفات پر سلام کا حکم ہے، جبکہ نبی کریمﷺ کی آمد مبارک کو اللہ کریم نے اپنا احسان قرار دے کر ہم پر اس احسان کا شکر اور شکریہ فرض فرما دیا۔ شکر جسمانی عبادت کانام ہے۔ جبکہ رب کا شکریہ نبی کریمﷺ کی امت سے محبت اور امت کی خدمت و دلجوئی ہے۔

وہ کہ جس کا ذکر اگر نہ ہو، نہ اذان ہے نہ نماز ہے

یہ اُسی کا ذکرِ جمیل ہے، یہ اُسی حبیب کی بات ہے

دلِ درد مند سنبھل سنبھل، ہے ادب بھی شرط نہ یوں مچل

تجھے دردِ عشق نصیب ہوا، یہ بڑے نصیب کی بات ہے

Check Also

Khawarij Ke Khilaf Karwai Aur Taliban

By Hameed Ullah Bhatti