Friday, 27 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Jaranwala, Musalmano Ki Aazmaish Hai

Jaranwala, Musalmano Ki Aazmaish Hai

جڑانوالہ، مسلمانوں کی آزمائش ہے

دہلی کی ایک جامع مسجد میں ایک انگریز نقاشی کا کام دیکھنے کے لئے آیا۔ وہ نقاشی کے فن میں بڑا ماہر تھا، جب وہ مسجد کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا تو ایک مسلمان فقیر جو اپاہج تھا، اس کے پاس آیا اور کہنے لگا: "مجھے کچھ دو میں غریب ہوں۔ اس نے جیب میں سے بٹوہ نکالا اور اسے کچھ پیسے دے دیے، پھر جب وہ اسے جیب میں ڈالنے لگا تو وہ بٹوہ نیچے گر گیا اسے پتہ ھی نہ چلا۔ وہ اوپر گیا مسجد دیکھی اور اسے کیلی گرافی کا کام بہت اچھا لگا، وہاں سے وہ گھر چلا گیا، گھر پہنچ کر اس نے اپنی بیوی کو بتایا کہ دہلی کی جامع مسجد میں کیلی گرافی کا کام دیکھنا ہے، وہ بہت ہی شاندار ہے۔۔

اس کی بیوی بھی اس شعبے سے تعلیم یافتہ تھی لہذا اس نے کہا کہ: "اچھا! اگلے اتوار کو مجھے بھی لے جانا، میں بھی جاکر دیکھوں گی"

اس نے لے جانے کا وعدہ کرلیا۔ رات کو اسے پتہ چلا کہ بٹوہ گم ہوگیا ہے۔ اسے یاد بھی نہیں آ رہا تھا کہ کہاں گرا ہوگا۔ اس میں کئی سو روپے تھے۔ اس زمانے میں سو روپے کی بڑی ویلیو تھی۔ اسے بڑا افسوس ہوا لیکن پھر اس نے سوچا اب تو ہوگا جو ہونا تھا۔

اگلے ہفتے جب وہ اپنی بیوی کو لیکر وہ کام دکھانے کیلئے گیا تو سیڑھیاں چڑھتے ہوئے اسے وہی اپاہج فقیر نظر آیا، وہ اس کی طرف آ رہا تھا، مگر اس دفعہ کچھ پیسے مانگنے کی بجاۓ، اپنا کشکول آگے بڑھانے کے بجاۓ اس فقیر نے اپنی کدڑی سے وہ بٹوہ نکالا اور کہنے لگا: "جی پچھلے ہفتے آپ کا یہ بٹوہ گر گیا تھا اور آپ چلے گئے تھے، یہ لیں اور اسے اپنے پاس محفوظ کر لیں"

اس نے جب اپنا بٹوہ لیا اور دیکھا تو اس میں کاغذات بھی پورے تھے اور پیسے بھی پورے تھے۔ اسے بڑی حیرت ہوئی کہ یہ مانگنے والا فقیر جو ایک، ایک روپے کو ترستا ہے اور اس میں سینکڑوں روپے تھے۔ اگر یہ چپ کر جاتا تو مجھے پتہ بھی نہ چلتا کہ پیسے کہاں ہیں، اس نے آخر اس کو کیوں نہیں رکھا؟

لہذا انگریز نے اس سے پوچھا کہ: "تم نے اسے واپس کیوں کیا؟ اگر تم رکھ بھی لیتے تو مجھے پتہ بھی نہ چلتا کہ کس کے پاس ہے؟

آگے سے فقیر یہ جواب دیتا ہے کہ: "میرے ذہن میں یہ خیال تو آیا تھا کہ رکھ لوں پھر ایک اور خیال آگیا کہ جس کی وجہ سے میں نے سوچا کہ میں آپ کو ڈھونڈوں گا اور آپ کو واپس کر دوں گا!"

انگریز نے پوچھا: "کیا خیال آیا تھا؟"

فقیر آگے سے جواب دیتا ہے: "مجھے خیال آیا تھا کہ اگر میں نے آپ کا یہ بٹوہ رکھ لیا تو ایسا نہ ھو کہ قیامت کے دن آپ کے نبی حضرت عیسیٰؑ میرے نبی حضرت محمد مصطفی ﷺ سے گلہ کریں اور یہ نہ کہہ دیں کہ تمہارے امتی نے میرے امتی کے پیسے چرائے تھے۔۔ "

الله اکبر!

مانگنے والے فقیروں کی سوچ ایسی تھی!

چاہے یہ واقعہ سچا ہے یا جھوٹا یہ ایک اخلاقی ذہنیت کی نمائندگی کرتا ہے۔ جس میں بزرگوں سےشرم و حیا انہیں بھی ہوتا تھا جو چور ہوتے۔۔ کسی زمانے میں کسی محلے کے بدمعاش کے ہوتے ہوئے اس محلے کی خواتین کو آتے جاتے کوئی چھیڑ نہیں سکتا تھا وہ غنڈہ بدمعاش اپنی محلے کی عورت کی چادر کا رکھوالا ہوتا تھا۔۔

قیام پاکستان کے دوران کئی ہندووں نے مسلمانوں کی حفاظت کی اور کئی مسلمانوں نے ہندو محلوں کی تمام تمام رات حفاظت کی۔۔

ایک بار ایک یہودی عورت اپنے بچے کے کھو جانے پر اوسان باختہ ڈھونڈ رہی تھی آقاﷺ کے سامنے سے اوسان باختہ گزر ہوا تو آپ کریمﷺ نے اس پر چادر منگوا کر ڈالی۔۔ صحابہ نے عرض کی یہ یہودی ہے۔۔ آقاﷺنے ارشاد فرمایا۔۔ تو کیا ہوا! بیٹی تو ہے نا؟

کسی ایک شخص کسی ایک شر پسند کا بدلہ پوری بستی پورے محلے سے لینا، بچیوں عورتوں کو موت اور عزت کے خوف سے کھیتوں میں ڈر کر چھپ کر تمام رات روتے رہنا۔۔ کیا ہم مسلمانوں کی غیرت کو زیب دیتا ہے۔۔ ان بھوکے معصوم بچوں اور لڑکیوں عورتوں کو جنہیں گستاخی کا مفہوم ہی پتہ نہیں اس رات میں ڈر کر بھوکے رہنے کا جواب کون دے گا۔۔ کیوں ہم مسلمانوں نے انہیں رات کا کھانا اور ان کی حفاظت کا ذمہ نہیں اٹھایا۔۔ دشمن کی بیوی، بیٹی یا ماں کے قتل کا کوئی واقعہ آقاﷺ کی سیرت سے تو بتا دیں۔۔

ہاں، بچے قتل کئے تھے، عورتوں کیو بے پردہ کیا تھا، مردوں کو قتل کیا تھا اور ننھی سکینہ کو ڈرا کر موت کے منہ میں دھکیلا تھا۔۔ وہ یزید تھا۔۔ یزیدیت اور ناموس رسالت میں زمین اور آسمان کا فرق ہے۔

جب آقاﷺنے اپنی تلوار لہرائی اور ارشاد فرمایا کہ اس کا حق کون ادا کرے گا۔۔ تو حضرت دوجانہؓ نے تھام لی اور سر پر سرخ پڑی باندھی اور لڑتے لڑتے کفار کے خیموں تک جا پہنچے۔۔ ہندہ کے سر پر تلوار رکھی اور کہا تم عورت ہو اور میری نبی ﷺ کی تلوار عورت پر نہیں اٹھ سکتی۔۔ اور واپس آگئے۔

کیا کوئی ایسا غیرت مند مسلمان نہیں جو کہے۔۔ ہاں گستاخ کی سزا اس کا سر تن سے جدا۔۔ مگر میری بیٹیو، بہنو، ماوں تم کو کوئی آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھ سکتا۔۔ تم ہماری آمان میں ہو۔۔ کیونکہ اگر حضرت عیسیؑ کہیں حضور ﷺ کو شکایت نہ کردیں۔۔ یا اماں مریم، اماں آمنہ سلام اللہ علیہا کو ان کے بیٹے کی امت کی شکایت نہ کریں۔۔ خدا کا خوف کریں اسلام نے دشمنی کے بھی اصول رکھے ہیں۔

Check Also

Nasaloo, Aik Riwayat Ak Yaad

By Amirjan Haqqani