Doobti Ummat Ki Bad Qismati
ڈوبتی امت کی بدقسمتی
ایک مرتبہ ملکِ عرب میں انتہائی خوفناک قحط پڑ گیا۔ اہلِ مکہ نے بتوں سے فریاد کرنے کا ارادہ کیا مگر ایک حسین و جمیل بوڑھے نے مکہ والوں سے کہا کہ اے اہلِ مکہ، ہمارے اندر ابو طالب موجود ہیں جو بانی کعبہ حضرت ابراہیم خلیل اللہؑ کی نسل سے ہیں اور کعبہ کے متولی اور سجادہ نشین بھی ہیں۔ ہمیں ان کے پاس چل کر دعا کی درخواست کرنی چاہیے۔ چنانچہ سردارانِ عرب حضرت ابو طالب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور فریاد کرنے لگے کہ اے ابو طالب، قحط کی آگ نے سارے عرب کو جھلسا کر رکھ دیا ہے۔
جانور گھاس پانی کے لئے ترس رہے ہیں اور انسان دانہ پانی نہ ملنے سے تڑپ تڑپ کر دم توڑ رہے ہیں۔ قافلوں کی آمدورفت بند ہو چکی ہے اور ہر طرف بربادی و ویرانی کا دور دورہ ہے۔ آپ بارش کے لئے دعا کیجیئے۔ اہلِ عرب کی فریاد سن کر ابو طالب کا دل بھر آیا اور حضور ﷺ کو اپنے ساتھ لے کر حرم کعبہ میں گئے اور حضور ﷺ کو دیوار کعبہ سے ٹیک لگا کر بٹھا دیا اور دعا مانگنے میں مشغول ہو گئے۔
درمیان دعا میں حضور ﷺ نے اپنی انگشت مبارک کو آسمان کی طرف اٹھا دیا، ایک دم چاروں طرف سے بدلیاں نمودار ہوئیں اور فوراً ہی اس زور کا بارانِ رحمت برسا کہ عرب کی زمین سیراب ہو گئی۔ جنگلوں اور میدانوں میں ہر طرف پانی ہی پانی نظر آنے لگا۔ چٹیل میدانوں کی زمینیں سرسبز و شاداب ہو گئیں۔ قحط دفع ہو گیا اور کال کٹ گیا اور سارا عرب خوش حال اور نہال ہو گیا۔ چنانچہ ابوطالب نے اپنے اس طویل قصیدہ میں جس کو انہوں نے حضورِ اقدس ﷺ کی مدح میں نظم کیا ہے اس واقعہ کو ایک شعر میں اس طرح ذکر کیا ہے کہ
وَاَبْيَضَ يُسْتَسْقَي الْغَمَامُ بِوَجْهه
ثِمَالُ الْيَتَامِيْ عِصْمَة لِّـلْاَرَامِلِ۔
ترجمہ۔ وہ (حضور ﷺ) ایسے گورے رنگ والے ہیں کہ ان کے رخ انور کے ذریعہ بدلی سے بارش طلب کی جاتی ہے وہ یتیموں کا ٹھکانا اور بیواؤں کے نگہبان ہیں۔
(المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ سیرت نبوی کے موضوع پر امام قسطلانی (1448ء۔ 1517ء)۔
بہت سال بعد جب نبی کریم ﷺ مدینہ پاک میں تشریف فرما تھے تو مدینہ پاک میں شدید قحط پڑا اس واقعہ کو حدیث پاک میں یوں بیان کیا گیا ہے۔
ترجمہ۔ انس بن مالکؓ نے کہ رسول اللہ ﷺ جمعہ کے دن خطبہ دے رہے تھے کہ اتنے میں لوگوں نے کھڑے ہو کر غل مچایا، کہنے لگے کہ یا رسول اللہ! بارش کے نام بوند بھی نہیں درخت سرخ ہو چکے (یعنی تمام پتے خشک ہو گئے) اور جانور تباہ ہو رہے ہیں، آپ اللہ تعالیٰ سے دعا کیجئے کہ ہمیں سیراب کرے۔ آپ ﷺ نے دعا کی "اے اللہ! ہمیں سیراب کر۔ "
دو مرتبہ آپ ﷺ نے اس طرح کہا، قسم اللہ کی اس وقت آسمان پر بادل کہیں دور دور نظر نہیں آتا تھا لیکن دعا کے بعد اچانک ایک بادل آیا اور بارش شروع ہو گئی۔ آپ ﷺ منبر سے اترے اور نماز پڑھائی۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو بارش ہو رہی تھی اور دوسرے جمعہ تک بارش برابر ہوتی رہی پھر جب نبی کریم ﷺ دوسرے جمعہ میں خطبہ کے لیے کھڑے ہوئے تو لوگوں نے بتایا کہ مکانات منہدم ہو گئے اور راستے بند ہو گئے، اللہ سے دعا کیجئے کہ بارش بند کر دے۔
اس پر نبی کریم ﷺ مسکرائے اور دعا کی " اے اللہ! ہمارے اطراف میں اب بارش برسا، مدینہ میں اس کا سلسلہ بند کر۔ " آپ ﷺ کی دعا سے مدینہ سے بادل چھٹ گئے اور بارش ہمارے ارد گرد ہونے لگی۔ اس شان سے کہ اب مدینہ میں ایک بوند بھی نہ پڑتی تھی میں نے مدینہ کو دیکھا ابر تاج کی طرح گردا گرد تھا اور مدینہ اس کے بیچ میں۔ (البخاری)
اسی واقعہ کو مصنف ضیاء النبی (پیر کرم شاہ الازہری) نے اپنی جلد دوئم میں اس طرح بیان کیا ہے۔
"جب بدو نے دوسرے جمعہ آ کر شدید بارش کی شکائت کی تو حضور نبی کریم ﷺ ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کریم ﷺ کے دندان مبارک ظاہر ہو گئے۔ پھر فرمایا اگر آج ابو طالب زندہ ہوتے تو یہ منظر دیکھ کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوتیں۔ کون ہے جو ان کا شعر سنائے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ نے عرض کی "کیا آقا ﷺ کی مراد ان کے اشعار ہیں؟ اور مندرجہ بالا اشعار پڑھے۔
آپ کریم ﷺ نے فرمایا "بے شک"۔
ان دونوں واقعات کو ضبط تحریر میں لانے کا مقصد یہ تھا کہ کفار مکہ اور حضرت ابو طالب کا ایمان تھا کہ نبی کریم ﷺکے توسط سے بارش مانگنے سے بارش ہو جاتی ہے اور اس واقعہ کو آپ کریم ﷺ نے مدینہ کے دور میں یاد اس لئے فرمایا کہ آج اگر ابو طالب ہوتے تو بہت خوش ہوتے کہ جس طرح بچپن میں انگلی کے اشارے سے بارش ہوئی تھی اسی طرح اب رک بھی گئی۔
ہم شائد ایمان میں ان کفار قریش سے بھی گئے گزرے ہیں جنہیں یہ یقین تھا کہ حضرت ابو طالب جن کے چہرے کا واسطہ دیتے ہیں۔ اللہ رد نہیں کرتا۔ ہم ایسی بدقسمت قوم ہیں کہ آزمائش کی اس گھڑی میں اپنے آقا ﷺ سے التجا نہیں کر رہی کہ اس رنج و غم اور سیلابی آفت میں نبی کریم ﷺکے واسطے سے اللہ کریم سے اپنے علاقوں میں رحم کی بھیک مانگیں۔
نعمتیں بانٹتا جس سمت وہ ذیشان گیا
ساتھ ہی منشیء رحمت کا قلمدان گیا
دل ہے وہ دل جو تِری یاد سے معمور رہا
سر ہے وہ سر جو ترے قدموں پہ قربان گیا
اُنہیں جانا، اُنہیں مانا نہ رکھا غیر سے کام
للہِ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
آج لے اُن کی پناہ، آج مدد مانگ ان سے
پھر نہ مانیں گے قیامت میں اگر مان گیا۔