Saturday, 28 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saleem Zaman
  4. Agar Khalid Bin Waleed Mazool Ho Sakte Hain To

Agar Khalid Bin Waleed Mazool Ho Sakte Hain To

اگر خالد بن ولید معزول ہو سکتے ہیں تو

عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ فاروقِ اعظمؓ نے تختِ خلافت پر بیٹھتے ہی خالد بن ولید کو معزول کر دیا تھا۔ لیکن اس بات کو سمجھنے میں لوگوں سے بہت غلطی ہوئی ہے۔ فاروقِ اعظمؓ نے شروع عہدِ خلافت میں خالد بن ولیدؓ کو حقیقی طور پر معزول نہیں کیا تھا۔ بلکہ اُن کا درجہ کسی حد تک کم کیا تھا۔

پہلے خالد بن ولید سپہ سالارِ اعظم تھے فاروقِ اعظم نے اُن کو نائب سپہ سالارِ اعظم بنا دیا تھا۔ اس ایک درجہ کے ٹوٹنے سے اُن کی ذمہ داریوں میں کوئی نمایاں فرق نہ آیا تھا۔ صرف اس بات کی روک تھام ہو گئی تھی کہ وہ آزادانہ طور پر مسلمانوں کی جمعیت کو کسی خطرہ کے مقام میں نہیں لے جا سکتے تھے۔ اور حضرت ابو عبیدہ کی رضا مندی اور اجازت ان کو حاصل کرنی پڑتی تھی۔

خالد بن ولیدؓ کی معزولی کا اصل واقعہ سنہ ۱۷ھ کے آخری مہینوں میں ہوا۔ اور اس کی تفصیل اس طرح ہے کہ فاروقِ اعظمؓ ہر سردار فوج، ہر عامل، ہر حصہ فوج اور ہر شہر کے حال سے باخبر رہتے تھے۔ آپ کے پرچہ نویس ہر فوج اور ہر شہر میں موجود ہوتے تھے اور بِلا کم و کاست ضروری حالات سے خلیفہ وقت کو آگاہ رکھتے تھے۔

حالانکہ ہر ایک عامل اور ہر ایک سردار فوج خود بھی اپنے حالات کی اطلاع دربار خلافت میں بھیجتا رہتا تھا۔ فاروقِ اعظمؓ کو اُن کے پرچہ نویس نے اطلاع دی کہ خالد بن ولیدؓ جو صوبہ جزیرہ کی فتح سے ابھی واپس ملک شام میں آۓ ہیں اپنے ساتھ بے حد مال و دولت لاۓ ہیں۔ اور انھوں نے اپنی مدح کے صِلہ میں اشعث بن قیس شاعر کو دس ہزار درہم دیئے ہیں۔

فاروقِ اعظمؓ نے حضرت ابو عبیدہ بن الجراح کو خط لکھا کہ خالد سے سر مجلس دریافت کیا جاۓ کہ آپ نے اشعث کو انعام اپنی گرہ سے دیا ہے یا بیت المال سے۔ اگر اپنی گرہ سے دیا ہے تو اسراف ہے اور بیت المال سے دیا ہے تو خیانت۔ دونوں صورتوں میں معزولی کے قابل ہیں۔ قاصد سے فاروقِ اعظمؓ نے یہ بھی کہہ دیا تھا کہ اگر خالد بن ولید اپنی غلطی کا اقرار کریں تو اُن سے درگزر کی جاۓ۔

چنانچہ وہ مجمع عام میں بلاۓ گئے۔ قاصد نے اُن سے پوچھا کہ یہ انعام آپ نے کہاں سے دیا؟ خالد بن ولیدؓ نے کہا کہ اشعث کو میں نے اپنے مال سے انعام دیا۔ بیت المال سے نہیں دیا۔ قاصد نے یہ سُنتے ہی فاروق اعظمؓ کو اس صورتحال کی اطلاع دی۔ فاروقِ اعظمؓ نے خالد بن ولیدؓ کو جواب دہی کے لیۓ مدینہ منورہ طلب فرمایا۔

خالد بن ولیدؓ نے حاضر ہو کر کہا کہ عمرؓ! واللہ آپ میرے معاملے میں انصاف نہیں کرتے ہو۔ فاروق اعظمؓ نے فرمایا کہ تمھارے پاس اتنی دولت کہاں سے آئی۔ اور اس قدر انعام و صلہ شاعر کو تم نے کہاں سے دیا؟ خالد بن ولیدؓ نے کہا کہ مال غنیمت سے جو میرے حصہ میں آیا تھا، انعام دیا تھا۔

پھر خالد بن ولید رضی اللہ تعالٰی نے کہا کہ اچھا ساٹھ ہزار سے جو کچھ زیادہ ہوا وہ بیت المال میں داخل کرتا ہوں۔ چنانچہ حساب کرنے پر بیس ہزار زائد نکلے اور بیت المال میں داخل کر دیئے گئے۔ اس کے بعد دونوں حضرات میں صفائی ہو گئی اور کوئی وجہ کدورت باقی نہ رہی۔ بس بتانا یہ تھا۔ کوئی جرنیل، کوئی وزیر اعظم، کوئی صدر، کوئی سیاسی لیڈر حضرت خالد بن ولید سے بڑا نہیں۔ سوائے اس کے جو انا پرستی اور ستائش کا شکار ہو۔

جرنیل ہو یا وزیر اعظم یا سابق وزیر اعظم ہو۔ اگر انہیں ملکی مفاد سے زیادہ اپنا مفاد اپنی انا اور خوشامد پسند ہے تو یہ لمحہ فکریہ ہے۔ کیونکہ انا پرستی اور شخصیت پرستی وہ بیماری ہے جو اداروں اور ملک کو دیمک کی طرح کھوکھلا کر دیتی ہے۔ اداروں کو شخصیت پرستی سے گریز کرنا ہو گا۔ اگر پاکستان ایک خود مختار اور سالمیت کی حامل مملکت خدائیداد ہے۔ اور زمانے سے مقابلے کا خواہش مند ہے۔

وہ زمانے میں معزّز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قُرآں ہو کر

تم ہو آپس میں غضب ناک، وہ آپس میں رحیم
تم خطاکار و خطابیں، وہ خطاپوش و کریم

چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریّا پہ مقیم
پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم

Check Also

Molvi Abdul Salam Niazi

By Zubair Hafeez