Zindagi, Insan Aur Falsafa
زندگی، انسان اور فلسفہ
زندگی کیا ہے؟ عناصر میں ظہور ترتیب! نہیں تو۔ یہ زمین پہ کیسے اور کیونکر پنپتی ہے؟ یہ کیوں ہمیں کبھی خوشیوں میں لپٹی ہوئی اور کبھی دکھوں اور تکلیفوں میں گوندھی ہوئی ملتی ہے؟ یہ کب اور کیوں کبھی بہت مہنگی اور کبھی بہت سستی بن جاتی ہے؟ زندگی کی طوالت اور اختصار کے پیچھے چھپے راز کیا ہو سکتے ہیں؟ یہ سوالات پڑھنے میں جتنے آسان ہیں، حل کرنے میں اُتنے ہی مشکل ہیں۔
بلا شبہ انسانی تاریخ، فلسفہ، مابعد طبیعیات، مذہب اور سائنسی علوم نے ان تصورات کو جھنجوڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ زندگی مگر پھر بھی بڑی حد تک سمجھ سے بالاتر ہے اور جب تک سمجھ میں آتی ہے تو انسان زندگی کی آخری سانسیں گن رہا ہوتا ہے۔ یقیناً زندگی کا سفر بہت مشکل ہے اور پیچیدہ بھی، لیکن زندگی نے خود کو ہمیشہ زندگی بخشی ہے۔
دنیا میں انسانوں نے ایک عجب تماشہ بنا رکھا ہے، کچھ انسان دم بدم مستقبل کے فکر میں لگے ہوئے کہہ رہے کہ یہ کریں گے، وہ کریں گے اور کچھ ماضی کو کوس رہے ہیں کہ یہ نہیں کیا وہ نہیں کیا! کچھ بھی ہو مگر زندگی آج کا نام ہے۔ زندگی کی لہریں لمحۂ موجود میں ہی تیرتی ہیں۔
آپ یہ دیکھیں کہ 21 ستمبر 1860 کو عظیم جرمن فلسفی Arthur Schopenhauer نے اپنی زندگی کا آخری دن جیا۔ فریڈرک نطشے، آئن سٹائن، سگمنڈ فرائڈ اور ٹالسٹائی جیسے عظیم دانشوروں کو متاثر کرنے والے اس فلسفی کا فلسفہ گہری یاسیت (Pessimism) پر مشتمل تھا مگر اس کے باوجود ایک جگہ لکھتے ہیں۔
"انسان کبھی خوش نہیں ہوتا بلکہ وہ اپنی پوری زندگی اس شے کے حصول کی تگ و دو میں گزارتا ہے جو اسے خوشی میسر کر سکے اور بہت کم وہ اپنی منزل کو پاتا ہے۔ اور جب کبھی وہ منزل پر پہنچ بھی جائے تو اکثر مایوس ہوتا ہے اور اس کی کشتی راستے میں ہی غرق ہو جاتی ہے اور وہ خالی ہاتھ ساحل تک پہنچتا ہے۔ جب یہ مرحلہ گزرتا ہے تو اس کو ادراک ہوتا ہے کہ چاہے وہ خوش رہا تھا یا غمگین، اس کی زندگی تو لمحہء موجود کے سوا کچھ بھی نہیں اور وہ بھی اب مٹنے کو ہے اور گویا ختم ہو چکی ہے"۔
اسی دنیا کی بے ثباتی کو مشہور امریکی مؤرخ اور فلسفی ول ڈیورانٹ اپنی کتاب، Fallen Leaves میں اسطرح بیان کرتے ہیں۔
"I'm quite content with mortality; I should be appalled at the thought of living forever, in whatever paradise. As I move on to my nineties my ambitions moderate, my zest in life wanes; soon I shall echo Caesar's words__ "I have already lived enough."
When death comes in due time, after a life fully lived, it is forgivable and good."
"میں فنا ہونے کے تصور سے بالکل مطمئن ہوں کیونکہ ہمیشہ زندہ رہنے کا خیال مجھے بے چین کر دے گا خواہ وہ کیسی ہی جنت میں کیوں نہ ہو۔ جوں جوں میری عمر نوے کی دہائی کو چھو رہی ہے، میرے عزائم معتدل ہو رہے ہیں۔ زندگی کا جذبہ ماند پڑ رہا ہے اور جلد ہی میں سیزر (Caesar) کے الفاظ دہراؤں گا:
"میں پہلے ہی کافی زندگی جی چکا ہوں!"
بھرپور زندگی جینے کے بعد آنے والی موت کو بخوشی گلے لگانا چاہئے کیونکہ یہ قابلِ معافی اور صحیح ہوتی ہے"۔
ول ڈیورانٹ کی زندگی اور خاتمے کے بارے میں تسلی بخش خیالات کو برطانوی فلسفی اور دانشور برٹرینڈ رسل اپنی کتاب "The Scientific Outlook" میں یوں لکھا ہے۔
"میں جب اپنی زندگی کی آخری سانسیں لے رہا ہونگا تو مجھے اپنی زندگی پر کوئی ملال نہیں ہوگا (کہ میری زندگی ضائع ہوگئی ہے)۔ یہ اسلئے کہ میں نے شام کے وقت اُفق کے کناروں کی سرخی دیکھی ہے، صبح کے وقت (پھولوں اور پتوں پر) شبنم اور کہر آلود دھوپ میں برف پوش نظاروں کو جھلملاتے دیکھا ہے۔ مجھے یہ احساس خوشی دیتا ہے کہ میں نے خشک سالی کی ماری ہوئی زمین کو موسلادھار بارش سے بھیگتے ہوا دیکھا ہے اور کورن وال (Cornwall) کے ساحلوں پر بحر اوقیانوس (Atlantic Ocean) کی بپھری ہوئی لہروں کو سر پٹختے دیکھا ہے"۔
کبھی کبھی ہماری زندگیاں سیاسی، معاشی اور معاشرتی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہیں۔ کبھی کبھی راستے تھکا دیتے ہیں کبھی منزلیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتیں۔ بقولِ غالب انسان کی ہزاروں خواہشیں ادھوری رہ جاتی ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ کبھی نہ پوری ہونے والی حسرتیں اور کبھی پیچھا نہ چھوڑنے والی یادیں بھی خاک میں مل جاتی ہیں۔ زندگی کے دوڑ میں مگر پھر بھی سانسوں کی ڈور سے بندھے ہوئے ہم آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
ان سب بے رحم موجوں کے باوجود زندگی کا سفینہ مگر پھر بھی رواں دواں ہے۔ پھر کیوں نہ تھوڑے سے وقت کیلئے ہی سہی ہم کہیں کہیں پہ اپنے اردگرد کے مظاہرِ قدرت اور خوشی کے لمحات سے لُطف اندوز ہوں۔ کیوں نہ کچھ وقت کیلئے اپنے دُکھ و غم کو بُھلا کر زندگی کی اُنگلیاں تھام کر بھاگا جائے کیونکہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے!