Pashtun Aur Nasliyat e Hindukush (1)
پشتون اور نسلیات ہندوکش (1)
اگر آپ تاریخ سے تھوڑا بہت شغف رکھتے ہیں خاص کر برصغیر میں رہنے والی مختلف اقوام کی تاریخ میں دلچسپی رکھتے ہیں تو یہ بات آپ کو معلوم ہوگی کہ جتنا آج تک پشتون تاریخ پہ لکھا گیا ہے شاید ہی کسی دوسری قوم بارے اتنا مواد موجود ہو۔ پشتون تاریخ پہ جو چند مشہور کتابیں ہمیں ملتی ہیں وہ کسی پشتون محقق نے نہیں لکھی۔
حال ہی میں شائع ہونے والی سعد اللہ جان برق صاحب کی مشہور کتاب، "پشتون اور نسلیات ہندوکش" ہے۔ برق صاحب اردو اور پشتو کے مایہ ناز ادیب، شاعر، محقق، کالم نویس اور مؤرخ ہیں۔ برق صاحب نے روایتی اور کلاسیکی تاریخ کو یکسر مسترد کیا ہے کیونکہ بقول ان کے، وہ ایک دیہاتی کاشتکار ہے اور انہوں نے یہ بات اپنے بزرگوں سے سیکھی ہے کہ درخت کی جڑوں کو کھوجنے کیلئے وسیع اور دور دور تک پھیلے ہوئے گڑھے کھودے جاتے ہیں۔
لہٰذا انہوں نے بھی کم و بیش ایسا ہی کیا اور پشتونوں کا شجرہ کھوجنے میں اپنی زندگی کے 25 سال لگا دئیے۔ انہوں نے پشتونوں کی تاریخ سے پہلے انسانی ارتقاء اور مختلف تہذیبوں پر روشنی ڈالی ہے۔ مواد اکٹھا کرنے کیلئے انہوں نے ہند، ایران اور افغانستان کی لائبریریوں سے استفادہ کیا۔ برق صاحب نے اس تحقیق میں دور جدید کے مختلف علوم استعمال میں لا کر سائنسی طریقے اپنائے ہوئے ہیں۔
برق صاحب کہتے ہیں کہ تاریخ کا معاملہ بہت پیچیدہ رہا ہے۔ تاریخ میں بہت سے مفروضات مسلمات جبکہ بہت سے مسلمات مفروضات ثابت ہو چکی ہیں۔ نوع انسانی کی تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں سب سے زیادہ جنگ و جدل امن کے نام پر کی جاتی رہی ہے، سب سے زیادہ امراض علاج کے نام پر پھیلائے گئے ہیں، سب سے زیادہ ظلم انصاف کے نام پر ہوا ہے، اور سب سے زیادہ رہزنی رہبری کے نام پر کی گئی ہے۔
ٹھیک اسی طرح علم کے نام پر جہالت اور روشنی کے نام پر اندھیرے پھیلائے گئے ہیں، سب سے زیادہ لوٹ مار محافظوں نے کی ہے اور سب سے زیادہ دشمنی دوستوں سے سرزد ہوئی ہے۔ لہٰذا تاریخ کی وادی میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے اور محقق کو انتہائی چوکنّا رہنا چاہیے ورنہ حقیقت خرافات میں کھو جاتی ہے۔
مثال کے طور پر کتاب میں مختلف جگہوں سے چند اقتباسات ملاحظہ فرمائیں۔
* ہمارے سامنے ہولوکاسٹ کا افسانہ ہے۔ اس وقت پورے یورپ میں یہودیوں کی تعداد چھ لاکھ تھی جبکہ ہٹلر کو ساٹھ لاکھ یہودیوں کا قاتل قرار دیا گیا ہے۔
*سکندر کی ماں ایک بدچلن عورت تھی، چنگیز خان کی بیوی کو دشمن اٹھا لے گئے تھے، امیر تیمور لنگڑا تھا، ہومر اور حسنین ہیکل دونوں اندھے تھے، نپولین ناٹا تھا اور ہٹلر بھی بچپن کی کئی کمتریوں کا شکار تھا۔ تاریخ کے یہ بڑے لوگ کسی نہ کسی کمزوری کا شکار ہو کر دنیا کو حیران کرنے اور اپنی کمزوری کے داغ مٹانے کیلئے بڑے بڑے کارنامے سر انجام دے چکے ہیں۔
*زیادہ تر مؤرخین کے نزدیک سب سے قدیم تمدن دو آبہ، دجلہ و فرات کی ہے۔ یہاں سب سے پہلے جس قوم یا نسل کے آثار ملتے ہیں وہ سومیری یا Sumerian کہلاتی ہے۔ کچھ لوگ اسے قدیم بابلی بھی کہتے ہیں۔
* اکثر پرانے زمانے کے انسانوں کی عمریں نہایت طویل بتائی جاتی ہیں حالانکہ مورٹیمر وہیلز نے موئنجودڑو اور ہڑپہ کی کھدائیوں میں مردوں کی قبریں کھود کر کہا تھا کہ اس زمانے میں انسان کی اوسط عمر 25 یا 30 سال سے زیادہ نہیں ہوتی کیونکہ ان کو ان قبرستانوں میں کوئی مردہ بھی 25، 30 سے زیادہ کا نہیں ملا۔ یہ شاید اس لئے کہ پرانے زمانے کا انسان کھانے پینے اور امراض و حوادث سے مقابلہ کرنے میں خاصا بے بس تھا۔
* محمد قاسم فرشتہ کو بہت قابل اعتبار مؤرخ مانا جاتا ہے لیکن جب یہ نسلی تعصب پر آ جاتا ہے تو نہ فرشتہ رہتا ہے اور نہ ہی مؤرخ بلکہ مغل بن جاتا ہے۔ یاد رہے انہوں نے تاریخ فرشتہ بھی لکھی ہے۔
اسی طرح بہت سے تاریخی، فکری، سماجی، سائنسی اور مذہبی نقطہ ہائے نظر اور عقیدوں پر بھی سوالات کا بوجھ ڈالا ہے جو نئی اور چونکا دینے والی حقائق ہیں جن کو روایتی تاریخ میں نہیں چھیڑا گیا ہے۔
جاری ہے۔
نوٹ: چونکہ کتاب میں شامل مواد بہت زیادہ ہے جسے ایک کالم میں سمیٹنا مشکل ہے۔ لہٰذا یہ سلسلہ قسطوں میں شائع ہوگا۔