Jamaliyati Zauq
جمالیاتی ذوق
روئے زمین پر بنی نوع انسان کو خوبصورتی، بدصورتی، اچھائی اور برائی ہر دور میں متاثر کرتی رہی ہے۔ ہر دور میں انسان انفرادی اور اجتماعی طور پر خوشی، امید، غم، اور دکھ درد جیسے جذبات سے متاثر ہوتا رہا ہے۔ وہ اپنے ان جذبوں کا اظہار پینٹنگ، سنگ تراشی، رقص و سرور، مجسمہ سازی، موسیقی، نثر و شاعری، فلسفہ اور روزمرہ زندگی میں کرتا رہا ہے۔
ایک تخلیق کار کے ان جذبوں کے اظہار کو کسی بھی شکل میں پرکھنا "ایستھیٹکس" یا جمالیات کہلاتی ہے۔ لفظ Aesthetic اٹھارویں صدی کے جرمن فلاسفر بام گارٹن نے وضع کیا تھا اور یہ لفظ یونانی زبان کے "ایستھونومیا" سے بنا ہے جس کا مطلب کسی چیز کو اپنے حواس کے ذریعے محسوس کرنا ہے۔ جمالیات وہ صنف علم ہے جس میں حسیاتی تاثرات کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
علی عباس جلالپوری کے مطابق ہیگل نے 1830 میں اپنے ایک مقالہ میں بام گارٹن کی یہ ترکیب برتی اور پھر عام رواج پا گئی۔ قرونِ وسطیٰ میں جمالیاتی ذوق کا منظم انداز میں مطالعہ نہیں کیا گیا لیکن حسن و جمال، بد صورتی اور قبح، اچھائی اور برائی جیسے موضوعات اس دور کے فلسفیوں کے بھی زیرِ بحث رہے۔ افلاطون اور ارسطو نے اس بارے میں جو نظریات پیش کئے، اُس نے آنے والے مفکرین کے نظریات کی راہ ہموار کی۔
ان مفکرین نے حسن کی تناسب، روشنی، علامات اور رنگ جیسے عنوانات پر طبع آزمائی کی اور اس طرح مختلف زمانوں میں جمالیاتی ذوق بڑھتی گئی۔ افلاطون نے "صورت یا شکل" کے تصور کو اجاگر کرتے ہوئے یہ نظریہ پیش کیا کہ خوبصورتی کی ایک کامل شکل و صورت ہوتی ہے اور اسلئے تمام خوبصورت چیزیں تجریدی کائنات میں نہیں بلکہ خدائی خوبصورتی میں شامل ہوتی ہیں۔ ارسطو کا یہ نظریہ تھا کہ جمالیات فطرت کو مثالی بناتی ہے اور اس میں موجود نقائص کو ختم کرتی ہے اور پھر اشیاء کو کاملیت اور تکمیل عطا کرتی ہے۔
جمالیات کا فلسفہ اٹھارویں صدی کے یورپ میں ابھرا اور پھر اس نے انگلستان میں ترقی پاتے ہوئے شاعری، مجسمہ سازی، موسیقی اور رقص جیسی اصناف پر اپنے اثرات مرتب کرنا شروع کر دیئے۔ اسی صدی میں پہلی دفعہ ہی ان تمام فنون کو آرٹ کے تحت یکجا کر دیا گیا۔ لہٰذا یہ اصناف کو آرٹ ہی کی مختلف شکلیں تصور کیا جانے لگا۔ جمالیات میں خوبصورتی سب سے اہم اور بنیادی عنصر رہی ہے اور اسے بیان کرنے کیلئے فلسفیوں کے ہاں مختلف آراء ملتے ہیں۔
کچھ کا خیال ہے کہ یہ سبجیکٹیو اصطلاح ہے جسے ہر انسان اپنی بنائی گئی کسوٹی پر پرکھتا ہے جبکہ کچھ کہتے ہیں کہ محض عقل خوبصورتی کو بیان کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ البتہ خوبصورتی میں ایسے عناصر ضرور موجود ہیں جن کی عقلی تشریح یا توضیح ممکن ہے۔ مثلاً ترتیب، ربط، حسن اور تناسب ایسے عناصر ہیں جو خوبصورتی کے بنیادی خصائص کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ عقل کے علاوہ اس کو سمجھنے کے لئے وجدان کی بھی ضرورت ہوتی ہے یعنی انسانی جذبات اور احساسات بھی ان کا تجربہ کر سکتے ہیں۔
اس زمانے میں ہمیں مارکس اور اینگلز جیسے فلسفی بھی ملتے ہیں جنہوں نے سماج کا جدلیاتی انداز سے جائزہ کرتے ہوئے آرٹ، خوبصورتی اور جمالیات جیسے فلسفوں کو بھی متاثر کیا۔ ان کے مطابق معاشی اور سماجی حالات انسان کی زندگی کے تمام پہلوؤں کو متاثر کرتے ہیں۔ ان کی نظر میں سرمایہ دارانہ نظام میں محنت کش کی زندگی کا کنٹرول اُس کے اپنے ہاتھ سے نکل جاتا ہے اور وہ ایک مشینی پرزہ بن کر رہ جاتا ہے جس سے اس کے انسانی جذبات و احساسات کچل جاتے ہیں۔ اور پھر آخر میں وہ پوری طرح سماج سے کٹ کر رہ جاتا ہے جس کو وہ فلسفہِ بیگانگی Theory of Alienation کہا جاتا ہے۔ یہ عوامل انسان کے جمالیاتی ذوق کو اپنے انداز سے متاثر کرتے ہیں۔
تاہم علوم بشریات اور نفسیات میں ترقی اور ارتقاء کے بعد آج ہمارے حسن، بد صورتی، اچھائی اور برائی، روحانی اور ماورائی قوتوں سے متعلق تصورات میں خاصی تبدیلی آئی ہے۔ ذہنی امراض جو کبھی ماورائی بد روحوں کی کارستانیاں سمجھی جاتی تھیں، آج ہمارے احاطہِ علم میں ہیں۔ توہم پرستی کو بھی شدید ضرب لگی ہے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان نے اجتماعی طور پر سیکھ کر علم کی افضلیت کو دل سے مانا اور سمجھا ہے۔
اسی وجہ سے یہ تبدیلی رونما ہوئی ہے۔ انسان اور سماجوں کا یہ سفر ایک تاریخی ورثہ ہے۔ وہ ماضی کے انسان اور اس کے آرٹسٹ کے فن پارے کے بارے میں ادراک کر سکتا ہے۔ آج کا قاری ماضی کے آرٹسٹ کی بے چینی اور بے قراری کا کسی حد تک اندازہ لگا سکتا ہے۔ ایک اچھے فنکار کو سماج کے اجتماعی شعور اور لاشعور میں موجود سکون و اطمینان اور بے چینی و بے قراری کا ادراک عام آدمی کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔
وہ سماج کے مختلف عناصر کے قبیح اور حسین پہلوؤں سے بہت اچھی طرح واقف ہوتا ہے۔ وہ اپنے جمالیاتی ذوق کی آبیاری کے لئے عام انسان سے قدرے زیادہ متجسس اور متحیر رہتا ہے۔ اور اس طرح وہ ایک عام انسان ہونے کے باوجود بھی پورے سماج کے اجتماعی شعور کا نمائندہ ہوتا ہے۔ آج کا کوئی بھی آرٹسٹ جدید دنیا میں ہونے والے واقعات سے لاتعلق رہ کر محض جام و سبو، گل و بلبل اور دیگر دلفریب مناظر کی خوبصورتی سے دل نہیں بہلا سکتا۔
اگر وہ ایسا کرتا ہے، تو یہ حقیقت سے فرار تو ہو سکتا ہے، لیکن یہ حقیقت نگاری نہیں ہے اور نہ ہی یہ ذوق آفاقی ہوتی ہے بلکہ وقتی اور لمحاتی ہوتی ہے۔ خوشی اور مسرت کے جذبات اپنی شکلیں بدل سکتے ہیں لیکن محسوسات وقت اور زمان و مکان کی قید سے آزاد ہوتے ہیں۔ قدیم دور میں بھی خوشی اور مسرت کے محسوسات ویسے ہی تھے جیسے یہ آج ہیں اور مستقبل میں بھی ایسے ہی رہیں گے۔