Mindset
مائنڈسیٹ
ٹورنٹو کا موسم بدل رہا ہے۔ آج کل معتدل درجہ حرارت اور دھوپ والے دن بونس سے کم نہیں ہیں۔ دسمبر میں برفباری بھی متوقع ہے۔ موسم کو انجوائے کرنے یا ضرورت کے تحت باہر نکلنے پر پوری تیاری کے ساتھ نکلنا ہی دانشمندی ہے۔ شام میں دروازے کی گھنٹی بجنے پر اکثر ٹین ایجرز سے سامنا ہوتا ہے جو برف ہٹانے کی پارٹ ٹائم جاب کے لئے پوچھتے ہیں کہ کیا ہمیں ان کی ضرورت ہے؟ یہ تو صرف ایک مثال ہے۔ ترقی یافتہ ممالک میں چھٹیوں یا فارغ اوقات میں طالب علموں کا مختلف نوعیت کی پارٹ ٹائم جاب کرنا عام سی بات ہے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ وہ یہ کام بہت شوق اور جذبے کے ساتھ کرتے ہیں ان کا یہ کام خاندانی پس منظر یا ان کے مالی حالات سے کوئی تعلق نہیں رکھتا، اور اس میں والدین کی رضا بھی شامل ہوتی ہے یہاں ہائی سکول ختم کرنے کے لئے چالیس گھنٹے volunteer کام کرنا ضروری ہے۔ طالب علم لائبریری، ہسپتال، اولڈ یا ریٹائر منٹ ہوم وغیرہ میں کام کر کے یہ گھنٹے جمع کرتے ہیں۔ بعض طالب علم تو اپنے resume کو بہتر بنانے کیلئے اپنے فارغ اوقا ت کا مثبت استعمال کر کے چالیس گھنٹوں سے بھی کہیں زیدہ کام کرتے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ مختلف قسم کے کمینوٹی کام بچوں کو بک سمارٹ کے ساتھ سٹریٹ سمارٹ بھی بناتے ہیں۔ وقت کی پابندی کے علاوہ ان میں خود اعتمادی پیدا کرتے ہیں۔ اگر بچے ان کاموں میں دلچسپی کا اظہار کریں تو بحثیت والدین انکے اس رویہ کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ یونیورسٹی آف منی سوٹا کے سائیکا لوجسٹ mark synder لکھتے ہیں
.People who volunteer tend to have higher self-esteem, psychological well being, and happiness"
ہمارے مائنڈ سیٹ سے مراد یہ ہے کہ ہم اس دنیا کو کس طرح سے دیکھتے ہیں؟ کیا سوچتے ہیں؟ اور کیا عمل کرتے ہیں؟ زندگی میں ہمیشہ وہی لوگ ترقی کرتے اور آگے بڑھتے دکھائی دیتے ہیں جو ایک فکسڈ مائنڈ سیٹ سے باہر نکل سوچتے اور عمل کرتے ہیں۔ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا تعالی کی طرف سے دی گئی صلاحیتیوں کو علم، محنت اور مسلسل سیکھنے کے عمل سے بڑھایا جا سکتا ہے۔ ہم نتائج کی تعریف تو ضرور کرتے ہیں لیکن ان نتائج تک پہنچنے والی کوشش اور طریقہ کار کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے بھی ہمارا مائنڈ سیٹ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ موجودہ دور میں parenting کسی بڑے چیلنج سے کم نہیں۔ بچوں میں ڈسپلن پیدا کرنا تو والدین کی ذمہ داری ہے ہی، ان کی صلاحیتیوں کا اعتراف کرکے ان کی حوصلہ افزائی کرنا بھی اتنا ہی اہم ہے۔
بہت سے والدین اپنے بچوں کو ڈاکرز، انجینرز بنانا چاہتے ہیں یا پھر اعلی سرکاری عہدوں پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں۔ اگر تعلیم مکمل ہونے پر انہیں فورا نوکری نہیں ملتی، تو کئی نوجوان اور والدین مایوسی کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ اس ضمن میں حکومت کو بھی ذمہ دار ٹھہرایا جاتاہے کہ وہ روزگا ر کے مواقع پیدا کرے۔ معاشرتی دبا ؤ کے تحت کسی چھوٹی ملازمت کو شروع کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ بعض اوقات یہ فارغ التحصیل طالب علم سر دھڑ کی بازی لگا کر بیرون ملک جانے کا سوچتے ہیں خواہ وہ مزیداعلی تعلیم کے لئے ہو یا پھر روزگار کے لئے، جو بھی زندگی میں ان کو آ گے بڑھنے میں مدد کر سکے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ کہ ترقی یافتہ ممالک میں جانے کے بعد لوگ وہی odd jobs کسی معاشرتی خوف اور دباؤ کے بغیر کرتے نظر آتے ہیں، جنہیں وہ اپنے وطن میں کرنا گوارہ نہیں کرتے۔ اس کی وجہ وہ فرسودہ ما ئینڈ سیٹ ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے ہی وطن میں گھٹن محسوس کرتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ بیرون ملک گھریلو خواتین کا mindset بھی خاصابدل جاتا ہے وہ اپنے گھر کے تمام کام خود ہی خوش اسلوبی سے نمٹا کر گھریلو ملازمین کے جھنجٹ سے آزاد ہو جاتیں ہیں۔
ہمارا بحثیت قوم مائینڈ سیٹ یہ ہے کہ ہم محنت کرنے والوں کی عزت اور قدر نہیں کرتے۔ لیکن اچھے خاصے صحت مند افراد کو بھیک دے کر ان کی ہمت بندھا تے ہیں۔ ہمارے مذہب میں گداگری کی سخت مما نعت کی گئی ہے۔ لیکن یہ امر افسوس ناک ہے کہ پیشہ ور گداگروں کی تعدا د میں اضافے کے ساتھ معصوم بچے بھی اس کی لپیٹ میں آ رہے ہیں۔ گداگری کے خلاف موثر قانون بنانے کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر ان کے روزگار اور مستقحین کی مدد کا انتظام ہونا چاہیے۔
ہماری کامیابی یا نا کامی کا تعلق ہمارے ما ئینڈ سیٹ سے ہوتا ہے۔ ہر انسان کے اندر کوئی نہ کوئی ٹیلنٹ ضرور ہوتا ہے، لیکن اس کو پہچاننے کا ہنر ہر کسی کے پاس نہیں ہوتا۔ جو لوگ مثبت مائنڈ سیٹ کے ساتھ اپنا ہنر پہچان لیتے ہیں، وہ کوئی راستہ نکال کر منزل تک پہنچ ہی جاتے ہیں۔ کیوں کہ ان کا مائینڈ سیٹ ہی ان کی کامیابی کی ضمانت بنتا ہے۔ اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں جہاں ہر پل، ہر لمحہ بہت کچھ بدل رہا ہے۔ ایک لگے بندھے فکری سانچے کے ساتھ چلنا ہماری زندگی کو مشکل بنا سکتا ہے۔ اپنی سوج، ذہن اور رویہ میں بہتر تبدیلی سے مت گھبرائیے، کیوں کہ یہی ہمارے آگے بڑھنے کی بنیاد ہے۔