Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Saadia Bashir
  4. Gravity Power Aur Bandar Bant

Gravity Power Aur Bandar Bant

گریویٹی پاور اور بندر بانٹ

بندر نے بلیوں کی ساری روٹی کھانے کے بعد درخت پر چھلانگ لگائی اور ایک شاخ سے ٹیک لگا کر بیٹھ گیا۔ اس کے ہاتھ میں وہی سیب تھا جو نیوٹن کے سر پر گرا تھا اور اس نے کشش ثقل کا راز دریافت کیا تھا۔ دانش ور بندر بخوبی جانتا تھا کہ نیوٹن کا فارمولا سائنسی ہے اور سماجی و معاشی فارمولے میں کسی تجربے کی ضرورت نہیں۔ تجاوزات، قبضہ مافیا اور ناجائز سوسائٹیز کی بھرمار اس بات کا کھلم کھلا ثبوت ہے کہ زمین میں لالچ و ہوس میں اندھا کر دینے والی حیرت انگیز کشش ہے۔

زمین میں زن سے بھی زیادہ کشش ہے۔ زمین کے لیے زن کی قربانی انہونی بات نہیں۔ زن کو اسی زمین پر ہی دفنایا جا سکتا ہے۔ خیر بات ہے دانش ور بندر کی، جس کی بانٹ اقربا پروری ہے نہ ہی کسی قسم کا حمایتی تاثر۔ یہ بندر بانٹ محاورے سے بہت مختلف ہے۔ چونکہ اس بانٹ میں صرف بندر ہی سٹیک ہولڈر ہے اس لیے اس کے زاویے بنتے بگڑتے رہتے ہیں۔ درخت پر شاخ سے ٹیک لگائے بندر کو بلیوں سے حاصل کی گئی روٹی کا "سواد" تک نہیں آیا تھا۔

اسے اب بلیوں پر ترس آ رہا تھا۔ بھلا سوکھی روٹی پر بھی کوئی یوں لڑتا ہے؟ درختوں سے تازہ پھل کھانے والے بندر کو سوکھی روٹی کی کشش کا راز بھی دریافت کرنا تھا۔ بندر کے چہرے کے زاویے بن بگڑ رہے تھے اور چہرے پر غور و فکر کی لائنیں ابھر رہی تھیں۔ کشش زر، زمین اور زن کے ابھرتے مٹتے نقوش نے اسے ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اسے لگا کہ نیوٹن نے gravity power کے چکر میں بے شمار پاورز کو نظر انداز کر دیا تھا۔

بندر کو یہ بھی علم تھا کہ کیمرج یونیورسٹی کے سامنے ایستادہ نیوٹن سے منسوب سیب کا درخت طوفان کی وجہ سے گر گیا ہے۔ تاہم باغیچے کے نگران ڈاکٹر سیموئیل بروکنگٹن نے بتایا ہے کہ یہ اس درخت کی کلون کاپی تھا اور کسی خدشے کے پیش نظر انھوں نے ایک اور کلون کاپی تیار کر رکھی ہے۔ دانش ور بندر کی آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے۔ دو سال پہلے اس کی محبوبہ کو شکاری کی اندھی گولی چاٹ گئی تھی۔ کاش اس کے پاس بھی کلون کی کوئی ایسی سہولت میسر ہوتی۔

افسوس نباتات، جمادات اور حیوانات کی دنیاؤں کے ضابطے یکسر مختلف ہیں۔ بندر بانٹ میں مشغول دانش ور بندر کو لگا کہ یہاں تو خلوص دل سے یاد کرنے کا بھی کوئی کارگر کلون نہیں تھا۔ بے موسم یادیں، بے موسم مرہم جو زیادہ تر صورتوں میں بے اثر ہی رہتے ہیں۔ اسے لگنے لگا تھا کہ ساری دنیا موسمی بٹیروں کا ایک جنگل ہے۔ اس کی اپنی پرجاتی میں ہی اتنی گروہ بندی اور تفریق تھی کہ اس کا ذہین دماغ بھی الجھ کر رہ جاتا کہ آخر ہنومان کیوں بھگوان تھا اور سبز بندر کریتو کے بچوں سے کیوں مداری گلی گلی تماشا کروا رہا تھا؟

بندر، بلیوں سے بندر بانٹ تو کر سکتا تھا لیکن کریتو کے بچوں کو ان کی ماں سے نہیں ملا سکتا تھا۔ یہ دکھ محبوبہ کی یاد کے ساتھ مل کر پتھروں کا ڈھیر بنتا چلا جا رہا تھا۔ انڈیا کے ایک گاؤں میں دھوم دھام سے بندر کی آخری رسومات کی خبر سے اس کے دل میں ایک ٹیس اٹھی۔ مداری کے ہاتھوں کریتو کے بچوں پر ہنٹر، ان کے زخمی پاؤں اور اپنی محبوبہ کے خون آلود بدن کی تصویر اس کی نظروں سے ہٹتی ہی نہ تھی۔

اس نے زور سے ایک چیخ ماری اور چلایا۔ "کیا میں بھگوان نہیں؟" بھگوان ہوتا بھی تو کیا کر لیتا۔ انسانی ہاتھ اس کی ناک، مونھ سب مروڑ کے رکھ دیتے۔ وہ کسی کی جیب، کسی کے بیگ، کسی دہلیز، کسی تھیلے میں چکراتا رہتا۔ بندھے ہاتھ اور جھکے ماتھوں سے اسے کیا دلچسپی ہو سکتی تھی۔ ہندوستان کی شمالی ریاست میں خود ہنومان پر بھی تو عدالت نے تجاوزات زمین کے ضمن میں نوٹس چپکا دیا تھا۔

اسے ہنومان سے زیادہ بابون بندر پر بھروسا تھا۔ اپنی داڑھی اور سنجیدگی سے بابون کو جنگل کے عالم کا رتبہ حاصل تھا۔ یہ الگ بات کہ جنگل کے کئی جانور اس کے فتوؤں کے ڈسے ہوئے تھے۔ بابون اپنی داڑھی سے کسی کو بھی زخمی کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ جدید تحقیق سے پتہ چلا کہ منٹو کے افسانے "کرامات" کا مرکزی کردار بھی بابون ہی تھا۔

لنگور بندروں کی حرکات کے پس پردہ بھی بابون کی ہی کرشمہ سازیاں تھیں۔ لنگور ہمیشہ چالیس پچاس کے مجمع میں غل مچاتے، ناچتے گاتے اور اونچی آوازیں نکال کر درختوں سے لٹکتے لیکن جونہی انھیں کوئی بھی بات یاد آتی وہ کسی پر بھی پل پڑتے اور اسے چور، مشرک، کافر قرار دے کر مار دیتے یا جلا دیتے۔ ایسے مواقع پر بابون آنکھیں بند کر کے مراقبہ میں غرق نظر آتا۔

البتہ مکڑی بندر کی کوہ پیمائی کی خصوصیت کو مدنظر رکھتے ہوئے دانش ور بندر نے انھیں نادیدہ پہاڑ سر کرنے کا ٹاسک دے رکھا تھا۔ لین دین کے تمام معاملات مکڑی بندر ہی طے کرتے تھے۔ وہ ایسا جال بناتے جو مکڑی کے جال سے بھی پیچیدہ تھا۔ اس جال کی گرہیں تاریخ کے صفحات میں لاینجل مسائل تھے ان پر خون سے تر فیتے باندھے گئے تھے۔

سوچتے سوچتے بندر کا سانس رکنے لگا۔ درخت سموگ سے اٹے پڑے تھے۔ دانش ور بندر کا سانس زہریلا ہوتا جا رہا تھا۔ اسے صرف بندر بانٹ سے پیٹ بھرنا آتا تھا۔ انسان ہوتا تو زہریلی سانس کا کاروبار کر سکتا تھا۔ ڈارون کے نظریہ کے مطابق وہ اپنے مسائل کے حل کے لیے وہ بھگوان سے انسان بننے کا خواہش مند تھا۔ اس کے ارمان طبقات اور فرقہ بندی کا شکار تھے۔ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔

Check Also

Chal Ke Hum Ghair Ke Qadmon Se Kahi Ke Na Rahe

By Asif Masood