Aaj Bazar Mein Pa Bajola Chalo
آج بازار میں پابجولاں چلو
سرکار اور سرکاری ملازمین میں عتاب ہمیشہ استاد پر ہی آتا ہے۔ سنگ میل سے استاد کا نام مٹا کر اسے راستے کا پتھر سمجھ لیا جاتا ہے۔ استاد جن کو شعور دینے کے لیے مقرر کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ انھیں کتابی اور حرفی علم دینے کی بار بار تاکید کی جاتی ہے۔ بار بار ان سے یہ حلف نامہ لیا جاتا ہے کہ وہ لکھ کر دیں کہ وہ اس دن، اس ہفتہ کیا پڑھائیں گے۔ انھیں تاکید کی جاتی ہے کہ طلبہ کو آبجیکٹو objective علم دیں اور اپنی نظر آبجیکٹوز پر مت رکھیں۔ تا کہ چھوٹی چھوٹی ایسٹ۔۔ کمپنیز اپنے اہداف حاصل کرتی رہیں۔ وہ استاد اپنے حق کے لیے نعرہ لگاتے ہیں تو کہا جاتا ہے۔
چشم نم جان شوریدہ کافی نہیں
تہمت عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پا بہ جولاں چلو
لیکن اب بات صرف استاد کی نہیں، دریا کے عین درمیان جماعت کو منجدھار نے آ لیا ہے۔ آخر کس کو سوجھی کہ ان کشتیوں میں سوراخ کر دیے جائیں۔ کون ہے جو نئے قوانین کے نام پر پہلے سے کیے گئے معاہدوں کی دھجیاں اڑاتا ہے۔ آخر کون ہے جو ہر لمحہ کسی نہ کسی تبدیلی کی آڑ میں انارکی پھیلانے کا ذمہ دار ہے۔ ہر کاروبار میں کامیابی کی بنیاد کسٹمر کئیر سنٹر کی شفافیت ہے۔ اچھے سٹورز ہوں یا بنک۔ اندر داخل ہونے والوں کو ہر صورت ڈیل کیا جاتا ہے خواہ چار پانچ گھنٹے زیادہ خرچ ہو جائیں۔ ہر بار قطار میں کھڑے لوگوں کو داخل کیا جاتا ہے۔ حقوق و فرائض کےدو طرفہ معاہدے کے فریقین یقین دہانی کے سہارے ہی آگے بڑھتے ہیں۔ اس یقین دہانی کے صفحات کالے کرنے والے کا مونھ موتیوں سے کون بھر رہا ہے۔
حضرت بایذید بسطامی ایک بار تنگ راستے پر جارہے تھے اور سامنے سے آنے والے کتے کو راستہ دینے کے لیے وہ پگڈنڈی سے اتر گئے ان کے مریدین نے ایک کتے کے لیے راستہ چھوڑنے پر جب ان سے سوال کیا تو انھوں نے جواب میں کہا کہ کتے کی آنکھوں میں ایک دل دہلانے والا سوال تھا جس نے مجھے لرزا دیا۔ مریدین بہت حیران ہوئے انھوں نے پوچھا "یا حضرت آخر کتے کی آنکھوں میں کیا سوال تھا؟ حضرت با یذید بسطامی نے کہا کتے کی آنکھوں میں سول تھا کہ میں نے اپنی پیدائش سے پہلے آخر کیا گناہ کیا تھا کہ اللہ نے مجھے کتا بنا دیا اور تم نے اپنی پیدائش سے پہلے آخر کیا نیکی کی تھی کہ اللہ نے تمہیں انسان بنا دیا۔
ہم اپنے ارباب اختیار سے پوچھتے ہیں"یاحضرت" آخر ایک جماعت کی غلطی اور دوسری جماعت کی درستی میں کس استثنی کو مدنظر رکھ کر انھیں تباہی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ آئین کی نظر میں چند سال پہلے کی مدت پوری کرنے والے اور آج کے ملازمین مساوی حقوق کے حق دار ہیں۔ اس لیے یہ نیا قانون بنیادی حقوق نمبر 25 کی صریح خلاف ورزی ہے۔ تمام ملازمین خاص طور پر وہ ملازمین جو ریٹائرمنٹ کے قریب ہیں شدید ذہنی دباؤ میں مبتلا ہیں۔ ان لا چار ملازمین کے موقف کو انسانی اور قانونی حق سمجھتے ہوئے سو موٹو ایکشن لے کران کی داد رسی کی جائے اور آئین کی بنیادی شق نمبر 25 کی بنا پر سرکاری ملازمین کو وہی سلوک دیا جائے جو similarly placed دوسرے ملازمین کے ساتھ برتا گیا۔ پنشن اور دیگر سہولیات کے ضمن میں موجودہ سرکاری ملازمین بھی تمام مراعات کے حق دار قرار دیے جائیں۔
اقوام متحدہ کے مقرر کردہ صارف کے حقوق میں یہ بات شامل ہے کہ اسے کسی ایسی چیز کی خریداری پر مجبور نہیں کیا جاسکتا جس میں نہ تو اس کی بہتری ہے اور نہ ہی اسے اس کی ضرورت۔ یعنی صارف کو آغاز سے اختتامی عمل کے تمام مراحل تک تحفظ کاحق حاصل ہے۔ ہر قسم کی پالیسی مرتب کرتے وقت صارف کوحق ہےکہ اس کے مطالبات اور تجاویز سنی جائیں، اور انہیں پالیسیز میں مناسب جگہ دی جائےاور کسی بھی قسم کا نقصان کی صورت میں تلافی کا حق اور ہونے والا نقصان پورا کیا جائے۔ غیر منصفانہ طریقوں سے زبان بندی کا حکم استحصالی اور آمرانہ رویہ ہے۔ ویسا ہی رویہ جیسا اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ساتھ کشمیر و فلسطین میں کیا جا رہا ہے۔
تعجب ہے منافقت کے یہ اصول کیسے ہماری کشتی تک آ پہنچے۔ جس کشتی میں چھید ہو وہ ناؤ ڈوبنے کو ہی ترجیح نہ دے تو کیا کرے۔ اساتذہ کے حقوق کی جنگ لڑنے کے لیے وہ خود میدان عمل میں تن تنہا کھڑے ہیں۔ ایک طرف یہ احتجاج ہے اور دوسری جانب وزیر اعلیٰ پنجاب کے سکولوں کے دورے ہیں۔ جہاں وہ اساتذہ کی ذہنی استعداد اور قابلیت پر انگلی اٹھاتے نظر آتے ہیں۔ وہ یہ ثابت کرنے پر مصر ہیں کہ استاد کچھ نہیں کرتے سوائے کمال کرنے کے۔ لہٰذا سکولوں کو این۔ جی۔ اوز کی گود بھرائی کرنا ہوگی۔
خدارا! یہ چلن بدلیں۔ استاد کی توہین سے شروع ہونے والے اس کھیل کو بند کریں اور استاد کو جیل بھرو تحریک سے باعزت بری کریں۔ خدارا اپنے حق اور داد رسی کی خواہش کو بلیک میلنگ کا نام نہ دیا جائے۔ رہے نام اللہ کا