Kaya Wo Mara Imtehan Tha
کیا وہ میرا امتحان تھا
ایک بات تو یقینی ہے کہ ہم اس دنیا میں اپنی مرضی سے نہیں آئے بلکہ ہم بھیجے گئے ہیں۔ دنیا کے ہر انسان کے ذہن میں تین سوال تو ضرور آتے ہیں۔ چاہے وہ کافر ہو یامسلمان پہلا کہ وہ کہاں سے آیا ہے، اس دنیا میں، دوسرا کہ اسے کدھر جانا ہے، مرنے کے بعد اور تیسرا کہ اب اس زندگی کو کس طریقے پہ گزارا جائے۔
اب ان باتوں کو جاننے کے صرف تین ذرائع ہیں بلکہ یہ کہنا چاہیئے کہ علم حاصل کرنے کہ دنیا میں صرف تین ذرائع ہیں پہلا حواس خمسہ ہے، آنکھ سے انسان وہی کچھ دیکھ سکتا ہے، جو اس کے سامنے نظر آرہا دیوار کے دوسری طرف کیا ہے اسکا کچھ پتا نہیں اسی طرح باقی حواس ناک، کان، زبان اور چھونا بھی محدود علم ہی فراہم کر سکتے ہیں۔
دوسرا ہے عقل، غوروفکر سے انسان کسی نتیجے پہ تو پہنچ سکتا ہے۔ لیکن دعوہ نہیں کرسکتا کہ وہ سچا ہے، مثلا اگر انسان صاف دل کے ساتھ تعصب سے نکل کر کائنات کے نظام پہ غور کرے کہ دن رات کیسے تبدیل ہوتے ہیں، اور وہ بھی ایسی پابندی کے ساتھ کہ صدیوں سے ایک لمحے کا بھی فرق نہیں آیا زمین وآسمان کی بناوٹ، مطلب جب وہ کائنات کے مظاہر پہ غور کرے گا تو اسے لگے گا کہ کوئی ضرور ایسا ہے۔
جو اس نظام کو چلا رہا ہے۔ لیکن صدیوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ عقل انسانی نے ہمیشہ انسان کو گمراہی کے گڑھوں میں گرایا ہے۔ جیسےڈارون نے عقل کے گھوڑے دوڑائے اور انسان کی ابتدا بندر سے کردی، لیکن یہ نہ بتا سکا کہ یہ جو اب بندر ہیں یہ کب انسان کا روپ دھاریں گے۔ دوسری بات انسان ہمیشہ زیادہ اثر اپنے اردگرد کے ماحول سے لیتا ہے۔
اگر ہر طرف شرک ہوگا تو کیسے مثبت سوچ پروان چڑھے گی اگر کسی کے اندر کوئی نئی سوچ آبھی گئی تو معاشرے کے ڈر سے یا تو دب جائے گی یا پھر اپنا وہم محسوس ہوگا۔ علم کا ایک تیسرا ذریعہ بھی ہے وہ ہے، وحی کا علم، دنیا میں انبیاء کا ہی ایک طبقہ ہے، جو بڑے زور شور سے اور دعوے کے ساتھ ان تین سوالوں کے جواب دیتا ہے کہ انسان کو اللہ نے پیدا کیا ہے۔
اور وہ ہی اس کا مالک ہے دوسرا انسان مرنے کے بعد مٹی نہیں ہوگا بلکہ اپنے مالک کے حضور حاضر کیا جائے گا اور اس سے اس کی پوری زندگی کا حساب لیا جائے گا تیسرا جب اللہ ہی زندگی کا حساب لے گا اس کے مطابق جزا وسزا دے گا تو پھر لازم ہے کہ یہ زندگی اس کے حکم کے مطابق گزاری جائے پھر ہی ہمارا مالک خوش ہوسکتا ہے۔ انبیاء کے اس دعوے کو آج تک کوئی جھٹلا نہیں سکا۔
کفار ہمیشہ دلیل میں انبیاء سے ہارتے رہے آخری حربہ ان ہٹ دھرموں کا یہی ہوتا تھا کہ اس کو اسکے مشن سے ہر قیمت روکا جائے کہ کہیں ہمارا شرکیہ کلچر ہی نہ ختم ہوگا۔ لیکن ہمیشہ جو لوگ فطرت پہ تھے ان کے پاس جیسے ہی انبیاء کی تعلیم آئی انہوں نے فورا اس کی تصدیق کی جیسے حضرت بلال اور حضرت ابوبکر صدیق۔ سیدابو الحسن ندوی نے ایک کتاب مذہب وتمدن میں اس موضوع کہ اوپر بڑی شاندار گفتگو کی ہے اور یہ کتاب انٹرنیٹ پہ باآسانی مل جاتی ہے۔
اب یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ پوری دنیا میں صرف مسلمانوں کے پاس وحی کاصحیح علم موجود ہے۔ جس کی حفاظت خود مولا کریم فرما رہا ہےاور اس وحی کو آگے پھیلانے کی ذمہ داری ہمیں دی گئی ہے۔ ہم امت محمدیہ ہونے کےسارے فضائل تو سمیٹ رہے ہیں۔ لیکن جو مقصد تھا وہ گم ہورہا ہے۔ ہم نے قرآن کو دو جلدوں میں بند کر کے اوپر غلاف چڑھا کہ الماری میں رکھ دیا ہے تاکہ گھر برکت ہوتی رہے۔
یا جب بیٹی کو رخصت کرنا ہو تو اسکے سائے تلے اگر زیادہ کریں تو عربی پڑھ لیتے ہیں۔ یہ ایسی مظلوم کتاب ہے۔ جو دنیا سب سے زیادہ پڑھی جاتی ہے۔ لیکن بغیر سمجھ کہ بڑے حافظ علامہ ہونگے لیکن قرآن کی فہم میں بالکل کورے ہوں گے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم ذلیل ہورہے ہیں۔ میں دعوے سے کہتا ہوں کہ جو شخص غوروفکر کرکے فرقہ پرستی سے بالاتر ہو کہ قرآن کو سمجھے گا۔
اسکی حالت ایسی ہوگی جیسے آگ کے انگاروں پہ چلنے والے کی ہوتی ہے اسے پھر ایک بے چینی پڑ جائے گی کیونکہ قرآن انسان کو ایک مشن دیتا ہے کہ زمین پہ میرا حکم جاری کرو، دین اسلام کو پھیلانے کے لیے فکری لحاظ سے ہر طرح رہنمائی کرتا ہے۔ قرآن نہ صرف انسان کے ذہن میں عقائد کے حوالے سے جو بھی شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ اسکے انتہائی تفصیل سے جواب دیتا ہے بلکہ قیامت تک جتنی بدعقیدگیاں انسانی ذہن میں پیدا ہوسکتی ہیں۔
سب کا جواب دلائل کے ساتھ رکھتا ہے اور حکم دیتا ہے کہ تمہاری خیر اسی میں ہے کہ میرے مشن کی تکمیل کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا دو چاہے کامیابی ملے یا نہ ملے تمہاری محنت نظر آنی چاہیئے۔ ورنہ ایک ہولناک عذاب کے لیے تیار رہو۔ لیکن ہمیں ہمارے علماء نے جھنڈی کروائی ہوئی ہے کہ ہم اللہ کی محبوب امت ہیں۔ ہماری سفارش حضور کردیں گے اگر جہنم گئے بھی تو بس کچھ دن کے لیے پھر اللہ ہمیں واپس جنت بھیج دے گا۔
کیونکہ ہم نے کلمہ پڑھا ہوا۔ اگر کوئی دین کی طرف آہی جائے تو اس بیچارے کو یہ تسبیحوں اور نفلوں پہ لگا دیتے ہیں کہ یہ تسبیح کرو تو اتنے شہیدوں کا ثواب اور اتنے نفلوں پہ اتنے لاکھ سال کی عبادت کا ثواب بس ہمارے حلوے نہ رکنے پائیں اور چندوں سے ہمارا سلسلہ چلاتے رہنا مولابھی خوش اور مولانا بھی خوش۔ باقی زندگی میں جو کرنا ہے کرتے رہنا اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔
پتہ نہیں بدر و احد میں مسلمان کیوں کٹتے رہے، جب اتنی آسانی سے جنت مل رہی تھی تو زخم کھانے، خون بہانے اور اپنے پیارے لٹانے کی کیا ضرورت تھی۔ مسلمان اس وقت دنیا میں علمی اور عملی دونوں لحاظ سے ایسےپٹ رہے ہیں۔ جیسے دنیا میں سب سے مجبور قوم ہی مسلمان ہیں۔ ذرا دیکھو تو سہی قرآن کیسے انسان کو سمجھاتا ہے۔ اسکی تربیت کرتا ہے قرآن کھولو سورہ الانعام کی آیت نمبر 165 پہ آو پڑھو اب۔
" وہی ہے جس نے تم کو زمین کا خلیفہ بنایا، اور تم میں سے بعض کو بعض کے مقابلہ میں زیادہ بلند درجے دیے، تاکہ جو کچھ تم کو دیا ہے، اس میں تمہاری آزمائش کرے۔ بے شک تمہارا رب سزا دینے میں بھی بہت تیز ہے اور بہت درگزر کرنے اور رحم فرمانے والا بھی ہے۔
اب اس آیت میں کیا مشکل بات ہے کچھ بھی نہیں اور اس ایک آیت میں انسان کو اسکی زندگی کا مقصد بھی بتا دیا، اور اپنا تعارف بھی کروا دیا کہ اے انسان تو زمین پہ میرا خلیفہ ہے، میری ہر چیز جو تیرے استعمال میں ہے، میری امانت ہے دوسرا دنیا میں میری امانتوں پہ انسانوں کا اختیار مختلف ہوگا کسی کا زیادہ کسی کا کم ایسا کبھی نہیں ہوگا۔
دنیا میں سارے امیر ہوجائیں اور غریب کوئی رہے نہ، ساری انسانیت خوش ہو اور دکھ کوئی رہے نہ ایسا کبھی نہیں ہوگا، اس حکمت کی وجہ بھی بتا دی کہ لوگو میں تمہیں آزمانا چاہتا ہوں کہ تم مختلف حالات میں کیسے میرے بندے بن کہ رہتے ہو۔
اور مولا کریم نےاپنا جامع تعارف بھی کروا دیا کہ میں صرف غفوررحیم نہیں بلکہ میری پکڑ بھی بہت سخت ہے۔ کسی مغالطے میں مت رہنا کہ جو مرضی کرتے رہو اور پھر کہو اللہ معاف کردے گا اگر اللہ ظالم مظلوم کو ایک ہی جزا دے تو یہی تو نا انصافی ہوگی اور ایسا ہے بھی نہیں بلکہ پورے قرآن میں پاک اللہ نے واضح کردیا کہ اگر کوئی اچھا عمل کرے گا تو جزا کئی گنا زیادہ اپنے فضل سے دوں گا اگر برائی کرے گا تو اتنی ہی سزا دوں اللہ کسی پہ رائی برابر ظلم نہیں کرتا۔
اسی طرح سورہ دھر اور سورہ ملک میں بھی مولا کریم نے انسان کی پیدائش، زندگی موت کا مقصد ہی امتحان بتایا ہے "ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں اور اس غرض کے لیے ہم نے اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا"(الدھر، 2)
"جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تاکہ تم لوگوں کو آزما کر دیکھے تم میں سے کون بہتر عمل کرنے والا ہے، اور وہ زبردست بھی ہے اور درگزر فرمانے والا بھی"(الملک، 2)
انسان اللہ کا غلام ہے اسے زندگی کا ہر پل اپنے مالک کی مرضی کے مطابق گزارنا ہے۔ یہی اس کی عبادت بھی ہے، یہی اسکی بندگی ہے، اگر اسی خوشی ملے تو اس لمحے کو اپنے رب کی مرضی کے مطابق گزارے اگر دکھ تو اس پہ اپنے مالک کی رضا کے لیے صبر کرے "میں نے جن اور انسانوں کو اس کے سوا کسی کام کے لیے پیدا نہیں کیا ہے کہ وہ میری بندگی کریں "(الذاریات، 56)
یہ دنیا جزا کا گھر نہیں ہے، بلکہ ایک امتحان کا گھر سورہ بقرہ میں تو تفصیل سے بتا دیا کہ تمہارا امتحان زیادہ کن صورتوں میں لیا جائے گا" اور ہم ضرور تمہیں خوف و خطر، فاقہ کشی، جان و مال کے نقصانات اور آمدنیوں کے گھاٹے میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ ان حالات میں جو لوگ صبر کریں۔ انھیں خوشخبری دے دو"(البقرہ، 155)۔ تاریخ کا سبق ہے اللہ نے اپنے پیاروں کو آزمایا ہے اور شدید آزمایا ہے۔
اور سب بڑا امتحان جب ہم دین پہ چلیں گے تو معاشرے سے کتنی تکلیفیں آئیں گی ان پہ صبر کرنا اور دین پہ جمے رہنا یہ تو شاید ہم نے سوچا بھی نہ ہو"پھر کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یونہی جنت کا داخلہ تمہیں مِل جائے گا، حالانکہ ابھی تم پر وہ سب کچھ نہیں گزرا ہے، جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں پر گزر چکا ہے؟ ان پر سختیاں گزر یں، مصیبتیں آئیں، ہِلا مارے گئے، حتٰی کہ وقت کا رسول اور اس کے ساتھی اہل ایمان چیخ اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی۔
اس وقت انھیں تسلّی دی گئی کہ ہاں اللہ کی مدد قریب ہے"(البقرہ، 214)۔ اب ان چند آیات کو ذہن میں رکھ کہ اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا واقعی ہم اپنی زندگی کو امتحان سمجھ کہ گزار رہے ہیں، جو کہ سردست نظر نہیں آتا ہم تو ہر وقت مال و دولت شہرت کے چکر میں بھاگ رہے ہیں، اپنی نفس کی تسکین میں مگن ہیں تو پھر یہ اللہ اور اسکے رسول سے عشق کے دعوے کا کیا مطلب ہے۔