Khandaron Mein Base Log
کھنڈروں میں بسے لوگ
رفیع حیدر انجم کا افسانہ "کھنڈروں میں بسے لوگ" انسانی جذبات کی پیچیدہ تہوں، سماجی حرکیات اور شہری عیش و عشرت اور دیہی سادگی کے درمیان فرق کو بیان کرتی ہے۔ واضح منظر کشی اور باریک بینی سے کہانی سنانے کے ذریعے، رفیع حیدر انجم نے ایک ایسا بیانیہ تیار کیا ہے جو قارئین کو انسانی وجود کی پیچیدگیوں پر غور و فکر کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
رفیع حیدر انجم کہانی کا آغاز یوں کرتے ہیں"چائے کے دوران باتوں باتوں میں اس اجنبی شخص نے اپنی جیب سے ایک عجیب و غریب شے نکال کر میز پر رکھ دی، "ہونٹوں کو رنگنے کے لئے، لپ اسٹک۔ " وہ مسکرایا، "لپ اسٹک؟" میں نے حیرت اور خوف کی سنسناہٹ اپنی نسوں میں محسوس کی اور نفرت کا ننگا تار اس کے جسم سے سٹا دیا۔ "وائلڈ سوائن"، "صرف باہر سے، خول ہٹاتے ہی اندر سے سرخ سرخ، خوشبودار، " نفرت کے ننگے تار پر سکون و اطمینان کا خول چڑھاتے ہوئے وہ لپ اسٹک کی خوبیاں گنانے لگا۔ پھر اس نے اپنی بائیں آنکھ دبا کے بڑی رازداری سے کہا۔ "شہر کی اونچی عمارتوں میں اس کا ڈیمانڈ بڑھتا جا رہا ہے۔ " "اور کھنڈروں میں؟" میری آواز کیسٹ کے بے ہنگم شور سے ٹکرا کر ٹوٹ پھوٹ گئی۔ "تم کھنڈروں میں بسے ہوئے لوگوں کو نہیں جانتے۔ " اس نے جلدی جلدی چائے کے لمبے لمبے گھونٹ بھرے اور مزید کچھ کہے بغیر ریستوران سے باہر نکل آیا"۔
کہانی چائے کے وقفے کے دوران مرکزی کردار اور ایک پراسرار اجنبی کے درمیان موقع سے ملنے کے ساتھ سامنے آتی ہے۔ اجنبی کی لپ اسٹک کی عجیب و غریب پیشکش مرکزی کردار کے اندر بہت سے جذبات کو جنم دیتی ہے، جو گہرے موضوعات کی تلاش کے لیے لہجہ قائم کرتی ہے۔
رفیع حیدر انجم رقمطراز ہیں"مجھے لپ اسٹک سے کوئی چڑھ نہیں ہے۔ مگر یہ کیا؟ شکل و شباہت سے جنگلی سور، سانپ اور بچھو نظر آئے۔ آخر کسی چیز کی اپنی مخصوص شناخت تو ہونی چاہئے۔ ورنہ اچھی چیزوں کا بھی سارا حسن زائل ہو جاتا ہے۔ لیکن ابھی ابھی اس نے اونچی عمارتوں کا ذکر کیا تھا۔ اس شہر کی اونچی عمارتیں تو انگلیوں پر گنی جا سکتی ہیں اور کھنڈر۔۔ چائے کا بل ادا کرکے باہر نکلا تو محسوس ہوا شہر کا شہر ہی تبدیل ہو چکا ہے۔ کٹے پھٹے چہرے، زنگ آلود ہڈیاں، نچی ہوئی تحریریں، ٹوٹے پھوٹے ظروف، طلاق شدہ قدریں، خارج الوقت سکے، مصلوب آوازیں، مکروہ سانسیں اور، اور ملبے، ایک لمحہ کے لئے ایسا محسوس ہوا کہ میں موہن جوڈارو کی کھدائی سے حاصل شدہ کوئی صدیوں پرانا بت ہوں جسے اس شہر کے چوراہے پر نصب کر دیا گیا ہے۔ موہن جوڈارو یعنی مردوں کا شہر۔ مگر یہ میری نگاہوں کا وہم تھا۔ شام کی آنکھوں میں رات کا کاجل بھر چکا تھا اور شہر کا شہر سڑکوں پر امڈ آیا تھا۔ آفس اور کارخانوں سے لوٹتے ہوئے لوگ باگ، ٹرام اور بسوں پر چڑھتا اترتا اژدہام، تھیٹروں کی دیواروں پر ٹنگی ہوئی نیم عریاں تصاویر، بجلی کے جلتے بجھتے رنگین قمقمے، فٹ پاتھ پر ابلتی ہوئی جوانیاں، خوش شکل و خوش پوش بچے اور کٹھ پتلی کی طرح ناچتا ہوا ٹریفک کانسٹیبل۔ میں نے اپنے ذہن پر گرد و غبار کی موٹی تہہ محسوس کی اور سوچا کہ آج کچھ وقت یونہی سڑکوں پر بھٹکتے ہوئے گزار دوں"۔
رفیع حیدر انجم نے مہارت سے دیہی زندگی کی ناہموار سادگی کے ساتھ شہری نفاست کی کشش کو جوڑ دیا ہے۔ لپ اسٹک کی طرف مرکزی کردار کی ابتدائی نفرت معاشرتی اصولوں کی سطحی پن کی عکاسی میں بدل جاتی ہے، کیونکہ وہ جنگلی خنزیر اور سانپوں کی خوبصورتی پر غور کرتا ہے۔ یہ تعارفی سفر قارئین کو معاشرتی توقعات کے درمیان حقیقی خوبصورتی اور شناخت کے جوہر پر سوال اٹھانے پر اکساتا ہے۔
رفیع حیدر انجم لکھتے ہیں"روز مرہ استعمال کی اشیا میں بیس فیصد کی رعایت، " کچھ قدم آگے بڑھا تھا کہ ایک اعلان سنائی دیا۔ بیس فیصد رعایت؟ مہنگائی کے دور میں اتنی رعایت بہت ہوتی ہے۔ مگر مجھے کس چیز کی ضرورت ہے؟ ، اس کا خیال آتے ہی بیک وقت کئی ضرورتیں اپنا سر اٹھانے لگیں۔ مگر تمام ضروریات تو پوری کی نہیں جا سکتیں۔ ہاں، کچھ لازمی اشیا فراہم کی جا سکتی ہیں۔ بہت دنوں سے میں نے روپا کے لئے کچھ نہیں خریدا۔ میں لپک کر سامنے کے ایک اسٹور میں داخل ہوگیا۔ کاؤنٹر کے پیچھے شو کیس کے اندر ٹیوب لائٹ کی سفید روشنی میں قرینے سے سجی ہوئی چیزیں جگمگا رہی تھیں۔ "کیا پیش کروں جناب؟" سیلز مین نے اپنی مسکراہٹ کی میزان پر میری خواہشوں کے اوزان کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔ "جی، " ایک لمحہ کے لئے میں بوکھلا کر رہ گیا۔ کیا چاہیئے مجھے؟ پھر لاشعوری طور پر میرے منہ سے نکل گیا۔ "لپ اسٹک۔ " سیلز مین نے بڑا سا ایک پیکٹ لا کر میرے سامنے رکھ دیا۔ "یہ، یہ کیا ہیں؟" حیرت سے میری آنکھیں پھیل گئیں۔ "گھبرائیں نہیں، لپ اسٹکس ہی ہیں۔ " اس نے مختلف شکل و شباہت کے خول ہٹا کر رنگ برنگے شیڈس کے لپ اسٹکس میرے سامنے پھیلا دیئے"۔
شہر کے منظر کی تصویر کشی، اس کی ہلچل بھری سڑکوں اور بلند و بالا فلک بوس عمارتوں کے ساتھ، مرکزی کردار کی اندرونی جدوجہد کے پس منظر کے طور پر کام کرتی ہے۔ جب وہ شہری زمین کی تزئین میں مصروف ہو جاتا ہے، تو اس کا سامنا زندگی کی تلخ حقیقتوں سے ہوتا ہے، ٹوٹے ہوئے چہروں سے لے کر خستہ حال اسٹور فرنٹ تک۔ یہ واضح وضاحتیں نہ صرف شہری زوال کی تصویر کشی کرتی ہیں بلکہ انسانی وجود کی بکھری ہوئی فطرت کا استعارہ بھی پیش کرتی ہیں۔
رفیع حیدر انجم لکھتے ہیں"کیا آپ کے پاس ایسے لپ اسٹکس نہیں ہیں جو باہر سے بھی لپ اسٹک ہی معلوم پڑے؟" میرے اس سوال پر اس نے مجھے حیرت سے دیکھا جیسے میں کسی برسوں پرانی قبر سے نکل کر وارد ہوا ہوں۔ اس کی نگاہوں کی تاب نہ لاتے ہوئے میں اسٹور سے باہر نکل آیا۔ اس کے بعد شہر کی درجنوں دکانیں چھان ماریں مگر مجھے مطلوبہ شے نظر نہیں آئی۔ میں اس تلاش و جستجو میں کافی آگے نکل آیا۔ یہاں تک کہ شہر کی اونچی عمارتیں پیچھے رہ گئیں اور کھنڈر نما مکانوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ چند قدم کے فاصلے پر میرا گھر تھا جسے میرے پردادا نے بنوایا تھا اور جس کی اینٹیں اتنی ہی بوسیدہ ہو چکی تھیں جتنی کہ قبر میں میرے آبا و اجداد کی ہڈیاں، پھر بھی مجھے اپنے گھر سے والہانہ عشق ہے کہ یہ ان کی آخری نشانی ہے۔ اچانک ایک ٹوٹی پھوٹی اجاڑ سی دکان پر میری نگاہیں ٹھہر سی گئیں۔ ایک معمر شخص بڑی تندہی سے مختلف اقسام کے چھوٹے بڑے مرتبان ایک صاف اور سفید کپڑے سے اس احتیاط سے جھار پوچھ رہا تھا کہ ذرا سی لاپروائی پرتی تو شیشے کے یہ نازک مرتبان ٹوٹ کر ریزہ ریزہ ہو جائیں گے۔ ان مرتبان کے اندر رکھی چیزیں اپنا رنگ و روغن کھو چکی تھیں۔ ایک موہوم سی امید لئیے ہوئے میں اس دکان میں داخل ہوگیا۔ "جناب، آپ کے پاس لپ اسٹک ہوگی؟" میں نے بڑی عاجزی سے دریافت کیا۔ معمر شخص کی آنکھوں میں عجیب سی چمک آکر غائب ہوگئی۔ اس نے کچھ کہے بغیر لکڑی کے ایک سالخوردہ بکس سے کوئی چیز نکال کر میرے سامنے رکھ دی"۔
انجم کی داستانی مہارت ایک بظاہر دنیاوی چیز - لپ اسٹک کے لئے مرکزی کردار کی جستجو کی عکاسی میں چمکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ یہ جستجو ایک علامتی اہمیت اختیار کرتی ہے، جو مادیت پرستی کے زیر اثر دنیا میں معنی اور صداقت کے لیے مرکزی کردار کی تلاش کی نمائندگی کرتی ہے۔ بوڑھے دکاندار کے ساتھ ملاقات اور ایک بوسیدہ لپ اسٹک پیک کی دریافت انسانی خواہش اور مایوسی کی داستان کی کھوج کو مزید گہرا کرتی ہے۔
رفیع حیدر انجم لکھتے ہیں۔ "بس یہی ایک بچی ہے۔ " میں نے اسے اٹھا لیا اور اس پر جمی ہوئی گرد کو صاف کرکے غور سے دیکھا تو خوشی سے اچھل پڑا۔ ارے، یہی تو میں تب سے تلاش کر رہا تھا۔ بالکل یہی، لپ اسٹک کو مٹھی میں دبائے تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا گھر پہنچا تو دیکھا کہ روپا دروازے پر کھڑی ہوئی میرا انتظار کر رہی ہے۔ "کہاں رہ گئے تھے اتنی رات گئے؟ میرا دل تو شام ہی سے، "میری تاخیر سے روپا واقعی پریشان نظر آ رہی تھی۔ میں نے اپنی بند مٹھی اس کے آگے بڑھا دی۔ "بولو تو، کیا ہے اس میں؟" "میں کوئی لال بجھکڑ ہوں جو، "اس کا جملہ پورا ہونے سے قبل ہی میں نے اپنی مٹھی کھول دی۔ "ارے، یہ تو لپ اسٹک ہے۔ مگر نہایت ہی فرسودہ، یہ دیکھئے، نئے برانڈ کی لپ اسٹک۔ " روپا نے میز کی دراز سے ایک پیکٹ نکال کر میری ہتھیلی پر رکھ دیا۔ میں نے پیکٹ کی تہوں کو کھولنا شروع کیا تو جیسے بجلی کے ننگے تار سے انگلیاں چھو گئیں۔ "تتلی؟" "ہاں، مگر باہر سے ہی نا، اوپر کا خول اتار دیں تو، اور استعمال کے بعد اس کا دوسرا مصرف گھر کی بہترین سجاوٹ۔ " روپا نے اوپر کے خول کو دیوار پر چپکاتے ہوئے کہا۔ "مگر آپ تو ایسے گھبرا گئے جیسے یہ تتلی نہیں، چھپکلی ہو۔ " میں نے شرمندہ سا ہوکر اسے دیکھا۔ دیوار پر چپکا ہوا لپ اسٹک کا خول سچ مچ کی تتلی نظر آ رہا تھا اور اس کے خوبصورت پروں میں دیوار کا ایک اجڑا ہوا بد نما حصہ بھی چھپ گیا تھا"۔۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ افسانہ "کھنڈروں میں بسے لوگ" انسانی حالت پر ایک پُرجوش عکاسی ہے، جس میں شناخت، سماجی دباؤ، اور صداقت کی جستجو کے موضوعات کو یکجا کیا گیا ہے۔ انجم کا فکر انگیز نثر اور بصیرت انگیز کہانی بیانیہ کو ایک سادہ کہانی سے آگے بڑھاتی ہے، جو قارئین کو اس بات کی فکر انگیز تحقیق پیش کرتی ہے کہ سطحی پن سے متعین دنیا میں واقعی انسان ہونے کا کیا مطلب ہے۔ میں مصنف کو اتنی اچھی کہانی تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔