26Wi Aeeni Tarmeem, Fawaid o Nuqsanat
26ویں آئینی ترمیم، فوائد و نقصانات
پاکستان کی پارلیمان نے حال ہی میں 26ویں آئینی ترمیم اپوزیشن جماعتوں کی مخالفت کے باوجود بھی اپنی حلیف جماعتوں کی مدد سے منظور کی ہے، اس ترمیم کے ذریعے کئی اہم آئینی و قانونی معاملات کو نئے سرے سے مرتب کیا گیا ہے۔ یہ ترمیم مختلف مسائل جیسے ججز کی تعیناتی، سود کا خاتمہ، آئینی بینچوں کا قیام اور چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے والے شقوں پر مشتمل ہے۔ گو کہ موجودہ حکومت کی طرف سے آئین میں کی جانے والی یہ ترمیم ایک تاریخی اقدام ہے، لیکن اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے اس کی بھرپور مخالفت کی جارہی ہے، یہ پاکستانی نظامِ انصاف اور آئینی ڈھانچے میں کئی نئی تبدیلیاں لے کر آئی ہے۔
حکومتی مشیروں کے مطابق اس آئینی ترمیم کا بنیادی مقصد عدالتِ عظمیٰ اور دیگر اعلیٰ عدالتی اداروں میں شفافیت اور کارکردگی کو بہتر بنانا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سود کا خاتمہ بھی اس ترمیم کا حصہ ہے، جو جمیعت علمائے اسلام (ف) کے سینیٹر کامران مرتضیٰ کی تجویز پر شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ، چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کے اختیارات کو محدود کرنا اور اعلیٰ عدالتوں کے ججز کی تعیناتی کے عمل میں پارلیمانی کردار کو بڑھانا بھی اس ترمیم میں شامل ہیں۔
اس ترمیم کے کئی اہم نکات ہیں جن میں ججز کی تعیناتی کا نیا طریقہ کار شامل کیا گیا ہے، اس ترمیم کے تحت، سپریم جوڈیشل کمیشن میں سپریم کورٹ کے چار سینیئر ججز اور پارلیمنٹ کے چار اراکین شامل ہوں گے، جو ججز کی تعیناتی میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اس ترمیم میں چیف جسٹس کے عہدے کی مدت کو تین سال تک محدود کیا گیا ہے اور ان کی تعیناتی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے کی جائے گی، جسے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف دونوں مشاورت سے نامزد کریں گے۔ آئینی بینچوں کی تشکیل اور ان کے اختیارات کو جوڈیشل کمیشن کے تحت لایا گیا ہے، تاکہ آئینی معاملات کا فیصلہ ایک مخصوص بینچ کے ذریعے کیا جائے گا۔
آئینی ترمیم میں سود کے خاتمے کے لیے ایک شق شامل کی گئی ہے، جس کے تحت جنوری 2028 تک ملک سے سود کو مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ جو کہ ایک خوش آئند فیصلہ ہے۔
اس ترمیم میں از خود نوٹس کے اختیارات میں تبدیلی کی گئی ہے، سپریم کورٹ کے از خود نوٹس (سوموٹو) لینے کے اختیار کو محدود کر دیا گیا ہے اور اس کے لیے تین ججز پر مشتمل ایک کمیٹی فیصلہ کرے گی کہ سوموٹو ایکشن کن وجوہات کی بناپر لیا جائے گا۔
اس ترمیم کے کئی فوائد ہیں جن میں ایک پارلیمانی شفافیت بھی ہے، اس ترمیم کے تحت ججز کی تعیناتی کے عمل میں پارلیمان کو شامل کرنا ایک اہم قدم ہے، جو عدلیہ میں شفافیت اور احتساب کو بہتر بنائے گا۔ ترمیم میں سود کے خاتمے پر بھی شق شامل کی گئی ہے۔ وطن عزیز سے سود کا خاتمہ عوام کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا جو اسلامی معاشرتی اصولوں کے عین مطابق ہے اور اس ترمیم کے ذریعے ملک میں اسلامی معیشت کو فروغ ملے گا۔
ترمیم کی منظوری کے بعد آئینی بینچوں کا قیام عمل میں لایا جائے گا، آئینی بینچوں کی تشکیل سے آئینی معاملات میں عدلیہ کی کارکردگی کو بہتر بنایا جا سکے گا، اور صوبائی نمائندگی کو یقینی بنایا جائے گا، جس سے عدلیہ میں شفافیت کو فروغ ملے گا۔ چیف جسٹس کے اختیارات کو محدود کرنے سے عدالتی فیصلوں میں یکطرفہ فیصلوں کے امکان کو کم کیا جا سکتا ہے، اور مشترکہ فیصلے کے ذریعے عدلیہ کی اجتماعی ساکھ کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ جہاں اس آئینی ترمیم کے فوائد ہیں وہاں اس کے نقصانات بھی ہیں مثال کے طور پر عدلیہ کی آزادی پر سوالات اٹھ رہے ہیں، اس ترمیم کے ذریعے عدلیہ کی آزادی کو محدود کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، کیونکہ ججز کی تعیناتی میں پارلیمانی کردار حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی مداخلت کا سبب بن سکتا ہے۔
اس کے علاوہ سود کے خاتمے میں عملی مشکلات سامنے آسکتی ہیں، سود کا خاتمہ ایک طویل المدتی عمل ہے، جس کے لیے ملکی معیشت کو مکمل طور پر تبدیل کرکے اسلامی بنانا ہوگا۔ جنوری 2028 تک سود کا مکمل خاتمہ ایک مشکل ہدف ہو سکتا ہے، جو معیشت پر منفی اثرات ڈال سکتا ہے۔ آئینی ترمیم میں چیف جسٹس کی مدت پر شق میں ترمیم کی گئی ہے، جو کہ چیف جسٹس کے عہدے کی مدت کو محدود کرنا ممکنہ طور پر عدلیہ کے تسلسل کو متاثر کر سکتا ہے، اور عدالتی نظام میں مستقل مزاجی کا فقدان پیدا ہو سکتا ہے۔ آئینی بینچوں کی تشکیل میں پیچیدگیاں بھی ہوسکتی ہیں، ترمیم میں آئینی بینچوں کی تشکیل میں صوبائی ججز کی نمائندگی تو یقینی بنائی گئی ہے، لیکن اس سے عدالتی کاموں میں تاخیر کا اندیشہ ہوسکتا ہے، خاص طور پر اگر کوئی بینچ فوری طور پر فیصلے کرنے میں ناکام ہوجائے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ 26ویں آئینی ترمیم پاکستان کے آئینی اور عدالتی ڈھانچے میں ایک اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس ترمیم کے فوائد کے ساتھ ساتھ کچھ عملی چیلنجز اور نقصانات بھی سامنے آ سکتے ہیں۔ حکومت کو اس بات کا دھیان رکھنا ہوگا کہ ترمیم کے تحت آئینی اور قانونی مسائل کو حل کرتے ہوئے عدلیہ کی آزادی کو برقرار رکھا جائے، تاکہ ملک میں انصاف کی فراہمی کا نظام بہتر اور مؤثر ہو۔