Ibteda Se Inteha
ابتداء سے انتہاء
یوں تو ہمیشہ ہی پاکستانی سیاسی صورتحال عدم استحکام کا شکار رہی ہے، مگر موسم کی گرمی کے ساتھ ساتھ گزشتہ تین ہفتوں میں سیاسی ماحول میں جو گرمی اور کشیدگی دیکھنے میں آئی وہ یقینا سبھی کے لیے غیر متواقع تھی۔
یعنی تین ہفتے پہلے کی سیاسی صورتحال کو دیکھا جائے تو ایک طرف معاشی مسائل اور عوامی رد عمل کا سامنا کرتی حکومت تھی اور دوسری جانب عوامی پذیرائی اور آئندہ انتخابا ت میں دو تہائی اکثریت لینے کے دعوے دار عمران خان اور ان کی جماعت تھی، اگرچہ تین ہفتوں بعد بھی حکومت معاشی مسائل سے نمٹنے میں مصروف ہے مگر 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری اور اس کے بعد ملک میں انارکی کے واقعات نے سیاسی نقشہ یکسر تبدیل کر دیا۔ وہ جماعت جس کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس ہر حلقے میں ٹکٹس کے خواہشمندوں کی بھرمار ہے 9 مئی کے بعد تنزلی کی جانب گامزن ہے، جیسے عمران خان وہ واحد وزیر اعظم ہیں کہ جنہیں باقاعدہ آئینی طریقہ کار یعنی عدم اعتماد کے ذریعے اقتدار سے بے دخل کیا گیا تو یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ 9 مئی کے بعد تاریخ میں تحریک انصاف وہ واحد جماعت ہے کہ جو اس برق رفتاری سے تنزلی اور اپنے خاتمے کی جانب گامزن ہے۔
9 مئی کے واقعات اور موجودہ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یقینا سیاسی بصیرت رکھنے والے یہ اندزاہ کرنے میں کامیاب ہوں گے کہ یہ حالات صرف 9 مئی کے واقعات کے پیدا کردہ نہیں بلکہ ان واقعات اور اس صورتحال کی جانب پیش قدمی عمران خان اور ان کی جماعت کی جانب سے اقتدار سے بے دخلی کے فوراً بعد شروع ہو چکی تھی۔ اقتدار سے باہر آنے پر زیادہ خطرے ناک ہونے کا دعویٰ کرنے والے عمران خان اپنے باقی دعوؤں کے برعکس اس دعوے میں درست نظر آتے ہیں، یعنی اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار کی ناکامیوں کا بوجھ اُٹھائے عمران خان نے اقتدار میں رہتے ہی اقتدار سے باہر آنے پر اپنی سمت کا تعین کر لیا تھا کہ انہیں کس طرح اپنی ناکامیوں کا ملبہ دوسروں پر تھونپ کر خود کو پھر سے عوام کی نظروں میں مسیحا ثابت کرنا ہے۔
عمران خان یہ جانتے تھے کہ جیسے انڈیا میں اینٹی پاکستان بیانیہ اقتدار کی کنجی ثابت ہوتا ہے ایسے ہی پاکستان میں اینٹی امریکہ اور اینٹی اسٹبلشمنٹ بیانیہ ان کی مقبولیت کی کنجی ثابت ہوگا جس کی شروعات عمران خان نے امریکی سائفر ہوا میں بلند کرکے امریکی سازش اور نکالے جانے کا ذمہ دار امریکہ کو قرار دے کر کی اور ساتھ ہی ساتھ موجودہ حکومت کو اسی سازش کے تحت اقتدار میں آنے اور غدار ثابت کرنے پر تلے رہے۔
عمران خان اقتدار سے نکلنے سے پہلے یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ ان کے بعد نہ تو ملک میں سیاسی استحکام آنے دیا جائے گا اور نہ ان کے بعد بننے والی حکومت کو چلنے اور معاشی مسائل سے نکلنے دیا جائے گا، چونکہ عمران خان اپنے دس سالہ دور اقتدار کی راہ ہموار کرنے کے مبینہ منصوبے پر حکومت میں رہتے ہوئے نا کام ہو چکے تھے لہذا یہ تمام تر بیانیہ نومبر میں آرمی چیف کی تعیناتی کو ملحوظ خاطر رکھ کر تربیت دیا گیا تا کہ وہ کام جو اقتدار میں رہتے نہیں کر سکے (یعنی مرضی کے آرمی چیف کی تعیناتی) اسے باہر رہ کریا نومبر سے پہلے کسی صورت الیکشن اوراسٹبلشمنٹ کو دباؤ میں لا کر کیا جا سکے یہ ہی وجہ تھی کہ اپنے سازشی بیانیہ کا پرچار کرتے عمران خان دبے دبے الفاظوں یعنی مسٹر x اور مسٹر y، میر صادق میر جعفر کہتے۔
اسٹبلشمنٹ کے خلاف بھی بیانیہ بنانے میں مصروف رہے، آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے اپنی ذاتی رنجش کی وجہ سے نومبرتک عمران خان کیسے ان کی تعیناتی کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرتے رہے اس کی نوعیت جاننے کے لیے صرف یہ ہی کافی ہے کہ انہوں نے راتوں رات عاصم منیر اور ان کی فیملی کا ڈیٹا نادرا میں موجود اپنے لوگوں سے نکلوا کر سعودی عرب کو ان کے حوالے سے بدظن کرنے کی کوشش کی، ساتھ ہی ساتھ اسلام آباد کی بجائے روالپنڈی میں لانگ مارچ لے جانا بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھا۔
نومبر میں آرمی چیف کی تعیناتی سے پہلے تک عمران خان کی منصوبہ بندی میں جلد الیکشن اور اپنی مرضی کا آرمی چیف لانا تو شامل تھا مگر اپنی دو صوبائی اسمبلیوں سے استعفے ہرگز شامل نہ تھا، مگر آرمی چیف کی تعیناتی کے بعدعدم استحکام پیدا کرنے کے لیے اسمبلیوں سے استعفوں کے آپشن کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا، ان کا یہ خیال تھا کہ اسمبلیوں سے استعفوں کے بعد معاشی و سیاسی عدم استحکام دیکھتے ہوئے حکومت جلد الیکشن کروانے پر مجبور ہوگی اور اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو عدلیہ کی سہولت کاری کی بدولت جلد الیکشن کی طرف جایا جا سکے گا۔
اسی لیے نومبر میں جنرل باجوہ کی ریٹائرمنٹ کے فوری بعد امریکی سازشی بیانیے کو یک دم جنرل باجوہ کی سازش قرار دیتے ہوئے نئی اسٹبلشمنٹ پر اورپنجاب اور کے پی اسمبلیوں سے استعفے دے کر حکومت پر دباؤ بڑھانے کی کوشش کی گئی، صوبائی اسمبلیوں سے استعفوں کے بعدعدلیہ بمقابلہ حکومت اور خود عدلیہ کی بدترین تقسیم ریاستی اداروں سے ٹکراؤ اور 9 مئی جیسے واقعات کی جانب عمران خان کی پیش قدمی کو مزید تیز کرنے کا موجب ثابت ہوئی، وہ بیانیہ جو امریکی سازش سے شروع ہو ا تھا امریکہ کو مائی باپ بناتے ہوئے امریکی لابنگ فرم کی خدمات حاصل کرنے تک جا پہنچا اور ساتھ ہی ساتھ عدلیہ کی سہولت کاری جو بظاہر ڈھکی چھپی تھی کھل کر سامنے آ گئی۔
حکومت کے عدلیہ کی جانبداری کے خلاف کھل کر سامنے آنے کے بعدعمران خان یہ سمجھ چکے تھے کہ جلد الیکشن اور اقتدار میں آ کر اپنے منصوبہ جات کی تکمیل مزید مشکل ہو چکی ہے لہذا پارٹی کی میٹنگز میں رہنماؤں اور کارکنان کو ہر قسم کی صورتحال کے لیے تیار رہنے اور ممکنہ گرفتاری کے بعد احتجاج کے نام پر ریاستی اداروں پر چڑھ دوڑھنے کی باقاعدہ منصوبہ بندی سے آگاہ کرنا شروع کر دیا گیا، پھر دنیا نے دیکھاکہ وہ جماعت جو امریکی سازش کے تحت نکالے جانے کا بیانیہ لے کر نکلی تھی جیسے وقتاًفوقتاً مختلف ناموں سے جوڑکر بالآخر 9 مئی کو عمران خان کی گرفتاری کے بعد ریاست سے ٹکرا گئی۔
ریاستی و فوجی املاک پر دھاوا بولنے اور جلاؤ گھیراؤ کرنے کو انقلاب کا نام تھے کر ہزاروں کارکنوں کو ملک کے بڑے شہروں میں پھیلا دیا گیا، نتیجتاً کور کمانڈر ہاؤس لاہور، جی ایچ کیو، آئی ایس آئی دفاتر، ریڈیو پاکستان پشاور، شہداء کی یادگاریں نیز کچھ بچ نہ پایا اور سب عمران خان کے خود ساختہ انقلاب کی نظر ہو گئے۔ دنیا بھر میں پاکستان دشمن جنہیں ہمارا ایٹمی پروگرام آج تک ہضم نہیں ہو سکا پاکستان کو سول وار زدہ ملک قرار دے کر پاکستان کے خدانخواستہ خاتمے کی پیشگوئیوں میں مصروف ہو گئے۔
پاکستان میں ترکی جیسا انقلاب برپا کرنے کے خواہش مند عمران خان شاید اپنی منصوبہ بندی کرتے یہ بھول گئے کہ جیسے پاکستان اور ترکی الگ الگ ملک ہیں ویسے ہی دونوں ممالک کی صورتحال اور عوامی و ریاستی رجحانات بھی مختلف ہیں، عدلیہ کی سہولت کاری اور مقبولیت کے گھوڑے پر سوار عمران خان شائد سمجھ نہیں پائے کہ صرف مقبولیت ہی حصول اقتدار کے لیے کافی نہیں بلکہ مقبولیت کے ساتھ قبولیت بھی ضروری ہے، اور وہ قبولیت کوئی بھی سیاسی جماعت اپنے منشور اور اپنے کردار سے حاصل کرتی ہے۔ مگر عمران خان اور ان کی جماعت نے یہ قبولیت بذور بازو ریاستی اداروں پر حملے کرکے حاصل کرنا چاہی او ر آج صورتحال یہ ہے کہ اس ایک روزہ انقلاب کے بعد عمران خان اور ان کی جماعت نہ تو مقبولیت کی صف میں کھڑی نظر آتی ہے اور قبولیت کی لسٹ میں تو شاید اب ان کا نام ہی درج نہ ہو پائے۔
اسٹبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدارمیں آنے والے عمران خان بظاہر تو سیاست سے فوج کے کردار کے خاتمے کا علم بلند کیے ہوئے تھے اور وہ اسٹبلشمنٹ جو ناکام تجربات کے بعدا علانیہ غیر جانبدار ہونے کافیصلہ کر چکی تھی اسے اپنے قول و فعل سے پھر سے اپنے کندھوں پر سوار کرنے اور سیاسی مداخلت پر اُکسانے کی تگ و دو کرتے رہے، نتیجتاً آج ہزاروں ماؤں کے بچے ان کے انقلاب کی نظر ہو کر جیلوں میں بند ہیں اور اب فوجی عدالتوں میں دہشگردی کی دفعات پر مشمتل مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور جہاں تک پارٹی رہنماؤں کی بات ہے تو عمران خان اور پی ٹی آئی کے عروج پر جیسے ہواؤں میں اُڑتے پارٹی میں شامل کروائے گئے تھے آج مشکل وقت کے شروع ہوتے ہی خزاں کے پتوں کی طرح بکھرتے جا رہے ہیں، جبکہ پی ٹی آئی کی بطور پارٹی کالعدم قرار دینے کی بھی باز گشت سنائی دیتی ہے۔
میں ذاتی طور پر کسی سیاسی جماعت پر پابندی لگانے کے حق میں نہیں بلکہ سیاسی جماعتوں کا سیاست کے میدان میں مقابلہ کرنے کا قائل ہوں مگر سیاست اور آزادی اظہارِ رائے کے نام پر تشدد اور ریاستی ریڈ لائن کو عبور کرنے کا کسی صورت حامی نہیں، سیاسی جماعتیں اپنی جدوجہد سیاست کے میدان اور آپس میں مذاکرات کرکے کرتی ہیں نہ کہ خود کو ریاست کے مقابل کھڑا کرکے۔
آج جب کہ عمران خان روز بروز تنہا ہوتے جار ہے ہیں تو موقع ہے کہ وہ تنہائی میں اپنی ابتداء سے انتہاء تک کے بنائے منصوبوں پر نظر ثانی کریں اور ریاست اور آئین کی بالادستی کو تسلیم کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگیں اور ان کی بدولت مشکلات کا شکار اپنے کارکنان کی داد رسی کریں یہ ہی ایک طریقہ ہے کہ جس سے وہ اپنی سیاست اور اپنی جماعت کو بچا سکتے ہیں ورنہ شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ
نہ سمجھوگے تو مٹ جاؤ گے
تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں