Sarfiyat Na Khatam Hone Wali Daur
صارفیت ناختم ہونے والی دوڑ
ہر سال کے اختتام پر اکثر مختلف سوشل پلیٹ فارم پر لوگ پورے سال کو سمارائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی کامیابیوں کو شئیر کرتے ہیں، ہر کوئی اپنے شوق کے مطابق بات کرتا ہے۔ مجھے کتابوں سے خاص لگاؤ ہے اور سال کے آخر میں ایک لسٹ تیار کرتی ہوں جس میں اپنی پسندیدہ کتابوں کا زکر کرتی ہوں اور ادبی دوستوں سے شئیر کرتی ہوں تاکے اگر کسی کودلچسپی ہو تو سجیشن لےسکیں۔
انسان کی زندگی چھوٹے چھوٹے فیصلوں کا مجموعہ ہوتی ہے، ہر روز صبح سویرے اٹھتے ہی انسان اپنے دن کے لیے فیصلے کرنا شروع کر دیتا ہےناشتے میں کیا کھانا ہے، دن میں کیا مصروفیات ہونگی سے لے کر کون سا لباس زیب تن کرنا ہے انسان ہر وقت کوئی فیصلہ کر رہا ہوتا ہے۔ میرا یہ ماننا ہے کے چاہے آپکے فیصلوں کی نوعیت بظاہر اتنی نہ ہو پھر بھی فیصلے سوچ سمجھ کر کرنے چاہیے کیونکے انکا اثر بالواسطہ یا بلاواسطہ انسان کی زندگی پر ہوتا ہے۔
یہی سوچ لے کر گزشتہ سال پڑھی ہوئی کتابوں کا جائزو لیتے ہوئے اپنی ریڈنگ ہیبٹ کو دیکھا جو پچھلے کئی سالوں سے تبدیل ہوتی نظر آرہی تھی اور اس تبدیلی کو سمجھنے کے بعد اس بات کا اندازہ لگایا کے کچھ عرصے سے لائبریری کی کتابوں اور ای بوکس پر زور کم اور نئی کتابیں خریدنے پر زیادہ زور رہا۔ پہلی ترجیح کتاب پڑھنے کے بجائے کتاب خریدنہ بن گئی۔
پھر احساس ہوا صارفیت کے کلچر جسکے اوپر عموعی طور پر آواز اٹھاتی ہوں خود اسی کا شکار بن گئی ہوں۔ انسٹاگرام پر زیادہ وقت کنیکٹڈ رہنا، وہاں کی ادبی کومیونٹی کو جوائین کرنا، انکی شئیر کردہ تصاویر کو دیکھ کر دل چاہنا کے یہ کتاب میرے پاس بھی ہونی چاہیے اور اس طرح کتابوں کو خریدنے نے۔ مجھے آہستہ آہستہ ریڈنگ سے دور کیا۔
صارفیت کا یہ کلچر یونہی کام کرتا ہے، دنیا اسی رنگ میں رنگی ہوئی ہےاور وقت کے ساتھ ہی ہماری ترجیحات بھی خراب ہو رہی ہیں۔ پرانی کتابوں کی خریدو فروخت میں کمی، ای بکس اور لائبریری کی کتابوں کی طرف لوگوں کا۔ کم رجحان اس بات کا چھوٹا سا ایک ثبوت ہے۔
بات صرف زندگی کی کسی ایک عادت کے تبدیل ہونے کی نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کے اس نے زندگی کر ہر پہلو کو متاثر کیا ہے اور اتنی خاموشی سے یہ کام انجام ہوا ہے کہ ہمیں خود اس بات کا اندازہ لگانا مشکل لگتا ہے کے ہمارے کیے ہوے فیصلوں میں کتنا اثر و رسوخ اس کلچر کا ہے۔ صارفیت عام الفاظ میں ایسی معاشی آئڈیولجی کا نام ہے جو انسان کی حوصلہ افضائی کرتی ہے کے وہ مزید چیزیں خریدتہ رہے، اسکا آغاز کیپیٹلایزم کے ساتھ ہی ہو گیا تھا، یہ کلچر معاشی گروتھ کے لیے آکسیجن کی طرح ہو گیا ہےاور ہم سب اس میں۔ ایسے پھنسے ہیں کے باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔
رہتی دنیا کے جس موڑ پر ہم کھڑے ہوے ہیں وہاں ان چیزوں کو سمجھنا بہت ضروری ہو گیا ہے، یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کے اسکے کیا نقصانات ہیں اور جو خوشی یہ کلچر انسان کو فراہم کر رہا ہے اسکی حد کیا ہے؟ اور اسکے بعد کی اوپشنز انسان کے پاس کیا ہیں، اپنی وہ ضروریات جو حقیقت میں اس کلچر کا دھوکہ ہے ان کے پیچھے بھاگتے بھاگتے انسان کہاں تک جا سکتا ہے۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کے یہ ایک ناختم ہونے والا سلسلہ ہے اور اس سے صرف انسان کی اپنی ذات کو نقصان نہیں ہے بلکہ پوری دنیا اس سے متاثر ہورہی ہے، ماحولیاتی تنزلی، اخلاقی طور پر پستی اور ذہنی بیماریوں کا بڑھتا ہوا نمبر سب اس کلچر کے دیے ہوئے تحفے ہیں جن سے ہمیں خود کو دور کرنا ہو گا، وقت آگیا ہے کے اس کلچر کو خدا خافظ کہ دیا جائے۔ یہ کام کہنا جتنا آسان ہے کرنا اتنا ہی مشکل مگر انسان کے ہاتھ میں اگر کچھ ہے تو وہ کوشش ہے اور ہمیں بھر پور کوشش کرنا ہوگی کے خود کو اس کلچر سے نجات دلوائیں۔
آسان عملی طریقے جن کے ذریعے یہ کام سر انجام دیا جا سکتا ہے ان میں سے کچھ یہ ہیں کے پہلے خود کو یقین دلائیں کے یہ کام ممکن ہے، خود کو مختلف اشتہارات سے دور کریں، کوئی چیز خریدنے سے پہلے خود سے پوچھیں کے کیا واقعی آپکو اس کی ضرورت ہے یا پھر وہ ایک فریبی ضرورت ہے؟ غیر ضروری شاپنگ کرنے سے اجتناب کریں، اپنا وقت کہاں اور کن کاموں میں صرف کر رہے ہیں، اپنے آپکو کن چیزوں سے اکسپوز کیا ہوا ہے اس پر نظر رکھیں، اپنے اندر اس دنیا اور یہ کن اصولوں پر چل رہی ہے اسکی سمجھ پیدا کریں، اپنا بیلنسڈ بجٹ تیار کر کے اس پر قائم رہیں اور شکر گزاری کے ساتھ زندگی گزاریں۔
صارفیت کی تصاویر کے دو رخ ہیں ایک منفی اور ایک مثبت، یہ ضروری ہے کے اس کلچر کے ہاتھوں جو بظاہر ہمیں معاشی ترقی دے رہا ہے ہم اپنا ذہنی سکون نہ گنوائیں اور اپنے آپکو اخلاقی طور پر کمزور نہ ہونے دیں اور دھرتی ماں پر ظلم کو روکیں۔