Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raja Najm Ul Hassan
  4. Tanhai, Muhabbat Aur Masail

Tanhai, Muhabbat Aur Masail

تنہائی، محبت اور مسائل

تنہائی کیا ہے؟ اس کے جواب میں شکاگو یونیورسٹی کے ماہر نفسیات جان کیسیوپو کہتے ہیں کہ "یہ معاملہ پیاس کی طرح ہے۔ جب آپ پیاسے ہوتے ہیں تو آپ پانی تلاش کرتے ہیں"۔ یہ تنہائی کی نفسیاتی تعریف ہے۔ ہم اکثر یہی سمجھتے ہیں کہ لوگوں سے بات چیت نہ کرنا اور خود الگ رکھنا تنہائی ہے، لیکن تنہائی ایسی کیفیت ہے کہ آپ لوگوں کے درمیان رہ کر بھی اسے محسوس کیا جاتا ہے جیسا کہ آپ ایک بحری جہاز میں سفر کر رہے ہوں اور اس جہاز کے ارد گرد سمندری پانی ہی پانی ہو اور آپ کو شدید پیاس لگی ہو۔ کیا آپ سمندری پانی پی لیں گے؟

جواب ہوگا ہرگز نہیں کیونکہ آپ کی یہ کمی صاف شفاف میٹھا پانی پوری کرے گا نہ کہ سمندر کا نمکین پانی۔ ہیں تو دونوں پانی ہی لیکن پیاس بجھانے کے لیے سمندری پانی کی ضرورت نہیں ہے۔ اسی طرح لوگوں کے ہجوم میں تنہائی پیاس ہے اور ہجوم سمندری پانی۔

تنہائی کے متعلق فراق گورکھپوری نے کہا تھا کہ

میں ہوں دل ہے تنہائی ہے تم بھی ہوتے اچھا ہوتا۔

تنہائی کے عالم میں کمی کسی ایک کی ہی ہوتی ہے۔ باقی لوگ تو بہت میسر آتے ہیں لیکن جن سے تنہائی دور ہو اس ایک کا میسر آنا اصل حل ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق تنہائی کی وبا نوجوانوں، خاص طور 15 سے 24 سال کی عمر کے افراد پر زیادہ شدت سے اثر انداز ہو رہی ہے۔ تنہائی کی وجہ سے فالج اور دل کی بیماری میں مبتلا ہونے کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے۔

اب تھوڑی بات محبت پر بھی کر لیتے ہیں اور پھر ان دونوں الفاظ کا مسائل سے ربط دیکھیں گے۔ محبت کے متعلق مرزا غالب نے کیا خوب کہا ہے

محبت میں نہیں ہے فرق جینے اور مرنے کا

اسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے

محبت ایک احساس، ایک جذبے کا نام ہے۔ محبت کو چند الفاظ میں قید کرکے اس کی لفظی تعریف بیان کرنا اس لفظ سے بہت بڑی نا انصافی ہوگی لیکن رسم دنیا کی خاطر یہ کام نہایت ضروری ہے۔

محبت کے متعلق اہل نفسیات کہتے ہیں کہ "محبت کی کیفیت اصل میں ذاتی نا اہلیت یا ذاتی ناکافی پن کا ہی نتیجہ ہوتی ہے"۔ ثقافتی لحاظ سے محبت کی تعریف اس سے قدرے مختلف ہے جیسا کہ فارسی ثقافت میں کسی بھی فرد، صورتحال یا تصور پر محبت کا عمل انجام پایا جاسکتا ہے، ترک ثقافت میں محبت کا خیال جنسی اور جذباتی تناظر میں محفوظ ہے۔ ہر معاشرے میں محبت کی تعریف وہاں کے لوگ ہی بہتر جانتے ہیں، لیکن محبت خود کہ ذات میں کمی کو کسی دوسری ذات سے مکمل کرنے کا ہی نام ہے۔

اب ہم تنہائی اور محبت دونوں کو تقریباً سمجھ چکے ہیں اور مسائل پر بات کرنا باقی ہے۔ اگر ہم ان مسائل کو اپنے معاشرے سے جوڑ کر دیکھیں تو بہتر طور پر سمجھ سکیں گے۔ مثال کے طور پر ایک نوجوان لڑکا یا لڑکی جب تنہائی کا شکار ہوتے ہیں تو اس کا حل محبت میں تلاش کرتے ہیں اور جب اس محبت کی تکمیل نہیں ہوتی تو مسائل جنم لیتے ہیں۔ معاشرے میں مشاہدہ کریں تو یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ آج کل سوشل میڈیا پر لوگوں کے رابطے بڑھ رہے ہیں۔ پاکستانی میڈیا پر اکثر یہ خبر سننے کو ملتی ہے کہ فلاں ملک سے ایک لڑکی یا لڑکا فلاں شخص کے لیے پاکستان شادی کرنے پہنچ گیا۔ اس امر کے پیچھے محبت بچاری ہی بدنام ہوتی ہے۔

اس کے علاؤہ یہ بھی مشاہدہ کی بات ہے کہ جن لڑکے لڑکیوں کے درمیان واٹس ایپ یا فیسبک کے ذریعے رابطہ ہوتا ہے وہ محبت جیسی کیفیت کا اکثر شکار ہوتے ہیں لیکن نوجوان نسل محبت کی اصلیت سے واقف نہیں ہوتی اور وقتی عادت کو محبت سمجھ لیتی ہے۔ جن لڑکے لڑکیوں کا رابطہ سوشل میڈیا پر ہوتا ہے ان کے ہی تعلقات سب سے زیادہ خراب ہوتے ہیں کیونکہ نکاح سے قبل کی بے تکلفی سے توقعات کا گراف بہت اوپر چلا جاتا ہے اور جب یہ بھرم کسی ایک کی طرف سے ٹوٹتا ہے تو اسٹاک مارکیٹ کی طرح محبت کے تمام شیئرز کا دام گر جاتا ہے۔ اکثر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ جب تعلقات خراب ہوتے ہیں ان میں قصور دونوں اشخاص نہیں ہوتے بلکہ قصور وار وہ غلط فہمیاں ہوتی ہے جو وہ خود ذہن میں بنا لیتے ہیں۔ یہ چند مسائل ہیں جو عام طور دیکھنے کو ملتے ہیں۔

اب ان کا حل کیا ہے؟ ہمیں ان کا حل شاید نفسیات میں ہی تلاش کرتے ہیں کیونکہ یہ نفسیاتی مسائل ہیں لیکن سب سے بہترین حل احکام الٰہی ہیں۔ ہم لاکھ خود کو لبرل کہہ لیں کروڑوں سائینسی تحقیق کر لیں جو حل ہمارے خالق نے بتایا ہے وہی حقیقی ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم اسلامی ملک تو ہیں لیکن اسلامی شریعت پر عمل نہیں کرتے اور ہمیں اسی پاکستانی معاشرے میں رہ کر اپنے ان مسائل کو بطور مسلمان مومن حل کرنا ہے۔ تو ہم خود پر کچھ حدود نافذ کرلیں تو بہتر ہے۔

ہماری یونیورسٹیوں میں لڑکے لڑکیاں اکٹھے پڑھتے ہیں اور الگ الگ تعلیم دینا اس وقت پاکستان میں ممکن نہیں ہے کیونکہ ملکی وسائل اتنے نہیں ہیں۔ اگر یہ دونوں گروپ خود کو حدود میں رکھیں تو یہ مسائل کبھی جنم نہ لیں اور بہت سی با عزت لڑکیوں اور لڑکوں نے اپنے عمل اور کردار سے ثابت کیا ہے کہ ہر تعلق حرام نہیں ہے۔ بس ہمیں اپنی حدود معلوم ہونی چاہیے اور خاص کر ان لڑکے لڑکیوں کے لیے مشورہ ہے جن کی منگنی ہوچکی ہے وہ نکاح سے قبل ہر وقت باتیں کرنے سے اجتناب کریں۔

شاید یہ بات پڑھ کر آپ کو ہنسی آنے لگے لیکن اس ہنسی کی وجہ سے حقیقت اپنی جگہ ہی قائم و دائم رہے گی کیونکہ بے تکلفی سے لحاظ اور ادب دونوں ہی ختم ہو جاتے ہیں اور بعض چیزیں ایسی ہو جاتی ہیں جن میں ایک فرد اپنی تذلیل سمجھتا ہے کیونکہ انا کا جذبہ تو بچپن ہی سے ہمارے اندر موجود ہوتا ہے اور جب انا پر وار ہو تو محبتیں پیچھے رہ جاتی ہیں کیونکہ کہیں نہ کہیں اسی انا کی تکمیل میں محبت کی جاتی ہے۔

Check Also

Imf Aur Pakistan, Naya Magar Shanasa Manzar

By Khalid Mehmood Rasool