Saturday, 18 May 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raja Najm Ul Hassan
  4. Hamari Kahaniyan Aur Hamare Nazriat

Hamari Kahaniyan Aur Hamare Nazriat

ہماری کہانیاں اور ہمارے نظریات

کہانی تو سوکھے پتے کی بھی ہوتی ہے جس پر کسی بہار کے موسم میں محبت کرنے والوں نے اپنے نام لکھے ہوتے ہیں۔ کہانی اس کشمیری طوطے کی بھی ہوتی ہے جو پنجرے میں قید انسانی زبان بولتا رہتا ہے مگر اپنی کہانی بیان کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ کہانی تو اس سرخ گلاب کی بھی ہوتی ہے جو کسی چمن میں کھلتے ہی اپنی ساتھی شاخ سے الگ ہوجاتا ہے۔

مگر یہ ہماری کہانیاں کیا چیز ہے؟ ہماری کہانیوں سے مراد انسانوں کی کہانیاں ہیں ان کہانیوں میں بلال پاشا اور عاصم جمیل کی کہانیاں بھی شامل ہیں اور آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے والے معصومین کی کہانیاں بھی۔ آج دسمبر 2023ء میں اپنے اردگرد نظر دوڑائیں کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہماری کہانیاں کافی ملتی جلتی اور دکھی حالت میں ہیں۔ ہماری کہانیاں میں ادبی اصطلاحات موجود ہوں نہ ہوں لیکن غربت، بیماری اور ڈپریشن ضرور شامل ہوگیا ہے۔

آج کے کسی مشہور شخصیت کی کہانی اٹھا کر دیکھ لیں اور پتھر کے زمانے میں موجود کسی انسان کی کہانی پڑھ لیں آپ کو دونوں ہی اپنی بقاء کی جنگ لڑتے نظر آئیں گے۔ آج کا انسان یہ کہتا ہے کہ میرے پاس ٹیکنالوجی ہے اور میرے پاس سہولیات ہیں لیکن انسانیت کہاں ہے؟ ہم ایک طرف ٹیکنالوجی نامی سہراب پیش کر رہے ہیں اور دوسری طرف مادہ پرستی کی ایک نہ ختم ہونے والی دوڑ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہماری کہانیاں انہیں موضوعات میں محدود ہو کر رہ گئی ہیں۔

اگر معاشرے کے دیگر گروہوں اور طبقات کو چھوڑ کر طلباء و طالبات کی کہانیاں دیکھ لیں تو بہت کچھ سمجھ آجائے گا۔ یونیورسٹی کی سطح پر دیکھیں تو ایک کلاس میں اوسطاً 50 طلباء و طالبات موجود ہوتے ہیں اور ہر فرد کی اپنی کہانی ہے۔ یہ کہانی بہت محدود سی ہے جس میں 80 سے 90 فیصد مسائل ہیں اور 20 سے 10 فیصد تخیلات ہیں۔ یہ کہانی کافی دلچسپ معلوم ہوتی ہیں لیکن آپ کہانیوں کو چھو کر تو دیکھیں، اچانک آنکھیں میں سیاہی اتر آئے گی۔ یہ کہانیاں کہیں سے بھی رنگین نہیں ہوتیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہماری کہانیاں اس قدر پھیکی کیوں ہیں؟ کیونکہ ہم اپنی کہانی میں موجود ہی نہیں ہوتے۔ ہماری کہانی میں ماں باپ کے خواب یا پھر کوئی شہزادی، شہزادہ ہوتے ہیں۔ ہماری قابلیت اور اہلیت کے مطابق نہیں بلکہ ہم اپنی ہی کہانی میں کوئی ثانوی کردار ہوتے ہیں۔ یہ ڈاکٹر، انجینئر، بزنس مین اور سی ایس پیز کی کہانیوں میں عبداللہ، زبیر، اسد، راحیلہ، مسکان اور سکینہ موجود نہیں ہوتیں وہاں صرف ٹائٹل ہوتے ہیں۔

زندگی میں کوشش کریں کہ کہیں نہ کہیں آپ خود اپنے کہانی میں موجود ہوں۔ اپنی ذات کی نفی کے بجائے اپنی ذات کی پرورش پر توجہ دیں۔ ذات کو نفی کرتے کرتے بغض اوقات ہماری غیرت تک مردہ ہو جاتی ہے۔ اس کی عملی مثال اسرائیل، فلسطین جنگ ہے جس میں مسلمان نیوٹرل اور امن پسند بنتے بنتے بے غیرت بن گئے۔

آج کی نوجوان نسل کو اس بات پر غور کرنے کی اشد ضرورت ہے کہ وہ اپنی کہانی کا جائزہ لے کہ اس کی کہانی کے الفاظ کا انتخاب کیسا ہے؟ کہانی کے کردار کون کون ہیں؟ کہانی کا ہیرو کون ہے؟ ویلن کون ہے؟ مرکزی اور ثانوی کردار کون ادا کر رہا ہے؟

ہر کہانی کا کوئی نہ کوئی مرکزی خیل ہوتا ہے اور ہماری کہانیوں کا وہ مرکزی خیل ہمارا نظریہ ہے جس کو بنیاد بنا کر ہم زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آج نوجوان نسل میں کسی بھی فرد کو معلوم ہی نہیں کہ وہ کسی نظریہ کے مطابق اپنی زندگی بسر کر رہا ہوں۔ کیا وہ اسلامی نظریہ کی پیروی کر رہا ہوں یا کسی اور نظریہ پر عمل درآمد کر رہا ہے؟ اس وقت دنیا میں کئی ایسی تنظیمیں سرگرم ہیں جو نوجوان نسل کے نظریات کے ساتھ کھیل رہی ہیں۔ آپ محض نظریہ ارتقاء کی تھیوری کو دیکھ لیں آج بھی ہر سلیبس میں اسی تھیوری کی مثال موجود ہے حالانکہ کہ دنیا میں اس سے زیادہ تحقیق ہوچکی ہے۔

ہماری کہانیوں میں بہت کچھ غلط لکھا جا رہا ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ ان کہانیوں کے مصنف بھی ہم خود ہیں لیکن نظریات ہمارے نہیں ہیں۔ یہاں ہر وہ شخص قرآنی تعلیمات کا حوالہ دے رہا ہے جیسے صرف ایک آیت کا ترجمہ آتا ہے لیکن اصل تعلیمات اور عمل سے خالی ہے۔ دنیا میں اس سے بڑی مثال موجود نہیں ہوسکتی کہ جس جس نے تنقید کے نظریہ پر اسلام و قرآن کا مطالعہ کیا وہ مسلمان ہوگیا لیکن مسلمان مومن نہ بن سکے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم انفرادی حیثیت میں قرآن کی طرف نہیں جا رہے۔ ہم کہتے ہیں کہ مذہب ہر ایک کا ذاتی مسئلہ ہے تو سیاست اور ریاست بھی ہر ایک کا ذاتی مسئلہ ہے ہر ایک کو قانون کے بغیر آزاد چھوڑ دیں۔ جس طرح کسی ریاست کو بغیر قانون کے چھوڑ دیا جائے تو وہاں انتشار جنم لیتا ہے اسی طرح جب تک مسلم قوم اسلام کو ہر طرف سے نافذ نہیں کرے گی تب تک فرد کی زندگی اسی طرح انتشار کا شکار ہی رہے گی اور کہانی غلط سے غلط ترین ہوتی جائے گی۔

برٹن روسل اگر عالمی ریاست کا نظریہ پیش کر سکتا ہے تو ہم مسلمان اسلامی نظام کا نظریہ کیوں نہیں پیش کر سکتے؟ ہمارے پاس نظام موجود ہے بس عمل کی کمی ہے۔ اس تحریر کا مقصد اپنی کہانی کی درستگی ہے۔ اپنے نظریہ کی پہنچان کرنا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہماری کہانیوں کو تمام نقصان دہ عناصر سے محفوظ رکھے آمین ثم آمین۔

Check Also

Neela Thotha

By Amer Farooq