Tegh O Qalam Ki Ahmiat
تیغ و قلم کی اہمیت
جب سے اس دنیا کا قیام ہوا ہے ہزاروں سال سے معاشرے اور سلطنتیں بنتی آ رہی ہیں لیکن سلطنتوں کے قیام سے زیادہ گھمبیر مسئلہ سلطنتوں کا قائم رہنا ہے۔ اِن سلطنتوں کے قائم ہونے اور قائم رہنے کے لیے میرے خیال سے دو ہی چیزیں ضروری رہی ہیں اور وہ ہیں تیغ اور قلم۔ اگر تاریخ کے جھروکوں میں دیکھا جائے تو جس قوم اور معاشرے نے اِن دونوں میں سے کسی کی اہمیت کو ترق کیا وہ قومیں جلد زوال پذیر ہو گئیں۔ اس کالم میں تیغ یعنی ہتھیار اور قلم دونوں کی اہمیت پر علیحدہ علیحدہ روشنی ڈالی جائے گی۔
تیغ جس کو یہاں ہتھیار سے تشبیہ دی جا رہی ہے اُس کے بنا اپنی سرزمین حاصل کرنا یا اُس کی حفاظت کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ دنیا میں تاریخ بتاتی ہے کہ جتنی بھی سلطنتیں قائم ہوئیں سب کی سب زورِ تلوار پر حاصل ہوئیں اور حصول کے بعد بھی اُن کی حفاظت تلوار کے بنا ناممکن تھی۔ اب یہ دور تھوڑا سا تبدیل تو ہو چکا ہے لیکن ہتھیار کی اہمیت تو ابھی بھی اتنی ہی ہے۔ مگر اب ایک فرق ضرور آیا ہے کہ اب آزادی بغیر ہتھیار کے بھی سیاست کے زریعے مل جاتی ہے لیکن آزاد ریاست کو قائم رکھنا ہتھیار کے بغیر ناممکن ہے جیسا کہ ہماری پیاری سرزمین پاکستان کو بھی کئی بار دشمن نے میلی نگاہوں سے دیکھا لیکن پاکستان کے بہترین دفاعی نظام کی بدولت پاکستان محفوظ ہے۔
اب اس جدت کے دور میں ہتھیار قتل و غارت کے بجائے دفاع کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے خلاف، جب پاکستان ایٹمی طاقت نہ تھا، تب تو کچھ بار دشمن نے جنگ کی جسارت کی لیکن ایٹمی طاقت بننے کے بعد براہ راست جنگ کی ہمت کسی میں نہ ہوئی جس سے ہتھیار کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ تیغ کی اہمیت کا تو یہاں سے اندازہ ہوتا ہے۔ علامہ محمد اقبال نے بھی عیش و عشرت کے مقابلے میں شمشیر کو ان الفاظ میں اہمیت دی ہے۔
میں تجھ کو بتاتا ہوں تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول طاؤس و رباب آخر
اب قلم کی اہمیت پر نظر ڈالتے ہیں۔ دنیا میں کسی بھی چیز کی اہمیت کو نظر انداز کیا جا سکتا ہے لیکن قلم کی اہمیت ہمیشہ سے تھی، ہے اور رہے گی۔ اب تاریخ کے جھرنوں سے اس کی اہمیت کا تزکرہ شروع کرتے ہیں اور مستقبل تک کی بات کریں گے۔ تاریخ میں جتنی بھی جنگیں لڑی گئیں وہ سب قلم کے بغیر جیتنا ناممکن تھا۔ اہلِ علم لوگ اُن جنگوں کے لڑنے کا تمام منصوبہ بنایا کرتے تھے اور جب کوئی زخمی ہوتا تو اہلِ علم ہی اُس کا علاج کرتے۔ ماضی میں جنگیں جیتنے کے بعد صاحبِ علم افراد کے بنا ریاست کا نظام ترتیب دینا ناممکن تھا اور کوئی ریاست کب تک قائم رہتی ہے یہ اُس کے عالموں کی تعداد پر منحصر ہوتا تھا۔ صاحبِ علم افراد رعایا کے دلوں میں گھر کرنے میں مددگار ہوتے جس کے بعد ہی ریاست مکمل طور پر فتح ہو پاتی۔
اب اگر دورِ حاضر میں قلم اور علم کی اہمیت پر بات کی جائے تو اس میں زرہ برابر بھی کمی نہ آ سکی بلکہ اس کے برعکس اس کی اہمیت میں بے تحاشا اضافہ ہوا ہے۔ اب تو یہ نوبت ہے کہ ہتھیار بھی علم کے محتاج ہیں۔ دورِ حاضر میں جنگوں میں ہتھیار کم اور علم و دانش زیادہ استعمال ہوتا ہے۔ جیساکہ اب جتنے طاقتور ممالک ہیں اور جو ایٹمی طاقتیں ہیں سب علم کی بنیاد پر بنے ہیں۔ اِس دور میں جس ریاست میں ہتھیار بنانے والی فیکٹریاں کم اور درس گائیں زیادہ ہیں وہ ممالک خوشحال ہیں۔ اسی طرح طب کا شعبہ بھی ایک حصہ ہے میدان جنگ کا جو علم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا اور آج کے دور میں تو میڈیکل وارز بھی ہوتی ہیں۔ تعلیم کسی بھی معاشرے سے شدت پسندی کا خاتمہ کرتی ہے اور دفاع کو مظبوط بناتی ہے اور واضع ہے کہ اس کی اہمیت مستقبل میں مزید بڑے گی۔ تعلیم کی اہمیت تو ہمیشہ رہے گی اور اسے فراموش کرنے والے پسماندگی کی جانب گامزن ہو جاتے ہیں۔
اب کچھ بات حتمی کرتے ہیں۔ حتمی بات یہ ہے کہ تعلیم اور علم کو تو جتنا بھی پھیلایا جائے کم ہے جیساکہ ہمارا دین بھی کہتا ہے کہ ماں کی گود سے لے کر گور تک علم حاصل کرو تو اس کو کے بارے میں تو جتنی بات کی جائے کم ہے۔ اب بات تیغ کی بھی کر لیتے ہیں ویسے تو ہتھیاروں کی افزائش قطعی طور پر ممنوع ہونی چاہیے لیکن ملکی سطح پر دفاع کے لیے ہتھیار بھی بہت ضروری ہیں لیکن غیر سرکاری طور پہ اگر کوئی ہتھیار رکھتا ہے تو اُس کی روک تھام کرنی چاہیے اور ذمہداران کو سزا بھی دینی۔ ہمیں تیغ و قلم دونوں کی اہمیت کو اور حد کو سمجھتے ہوئے سرکاری سطح پر اِس کو ترجیح دینی چاہیے۔