Iqbal Ka Andaz e Bayan
اقبال (رح) کا اندازِ بیاں
علامہ محمد اقبال رحمت اللہ علیہ برصغیر کے وہ نام جنہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ بدل ڈالی۔ اُن کی شاعری نے برصغیر کے مسلمانوں کو وہ جذبہ عطا کیا کہ جس جذبے کی بدولت آج برصغیر کے مسلمان آزاد ہیں۔ علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ نے بہت عمدہ انداز میں اپنی شاعری کو ترتیب دیا انہوں نے فارسی میں بھی شاعری کی اور اُردو میں بھی اعلیٰ انداز میں شاعری کی یہاں تک کہ انہوں نے جب آسان الفاظ میں شاعری کی تو بچوں کی بہترین نظم لب پہ آتی لکھ ڈالی۔ علامہ محمد اقبال رحمت اللہ علیہ کی شاعری کے ترک اور دیگر زبانوں میں بھی تراجم کیے گئے۔ یہاں تک کہ جس جس نے بھی اپنی قوم کے نوجوانوں کو جگانا چاہا اُس نے علامہ اقبال کی شاعری کو استعمال کیا۔ آج ہم علامہ محمد اقبال رحمت اللہ علیہ کی شاعری کے کچھ موضوعات جو رہے ہیں اُن پر بات کریں گے۔
علامہ محمد اقبال رحمت اللہ علیہ کی شاعری کا موضوعِ خاص نوجوان رہے ہیں۔ علامہ اقبال نے ہمیشہ نوجوانوں کو کسی بھی قوم کا ستون سمجھا اور نوجوانوں کا حوصلہ بڑھایا۔ علامہ محمد اقبال رحمت اللہ علیہ نے نوجوانوں کو کبھی چٹان سے تشبیہ دی اور کبھی شاہیں سے تشبیہ دی۔ علامہ محمد اقبال نے ہمیشہ نوجوانوں کا حوصلہ باندھا کہ نوجوان اگر چاہے تو چٹانوں کو بھی ریزہ ریزہ کر سکتا ہے۔ علامہ اقبال ایک جگہ نوجوانوں کو ستاروں سے آگے جانے کی تلقین کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں
ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
ایک اور جگہ علامہ اقبال نوجوانوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں۔
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
علامہ اقبال کے موضوعات میں فلسفہ خودی نمایاں رہا۔ علامہ محمد اقبال رحمت اللہ علیہ نے ہمیشہ نوجوانوں اور مسلمانوں کو خودی کا درس دیا اور خود پر انحصار کرنا سکھایا یہی وجہ ہے کہ اسی فلسفہِ خودی کی بدولت ہم نے آزاد ملک حاصل کیا۔ علامہ اقبال نے نوجوانوں کو درس دیا کہ اگر خودی رکھی جائے تو الله بھی انسان کی منشاء کے مطابق خواہشات کو پورا فرماتا ہے۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
علامہ اقبال نے نوجوانوں کو ہمیشہ خودی کو قائم رکھنے کا درس دیا۔
خودی وہ بحر ہے جس کا کوئی کنارہ نہیں
تو آب جو اسے سمجھا اگر تو چارہ نہیں
علامہ محمد اقبال رحمت اللہ علیہ نے صوفیانہ شاعری میں بھی کمال حاصل کیا اور کئی مقامات پر الله کے ساتھ اپنی شاعری میں کلام کیا۔ علامہ اقبال کی الله عزوجل کے ساتھ کلام اور الله سے مخاطب ہو کر کلام کی سب سے بڑی مثال شکوہ، جواب شکوہ ہے جس میں پہلے تو علامہ اقبال الله کو شکوہ کرتے نظر آتے ہیں کہ کافر زیادہ خوشحال ہیں مسلمان سے لیکن اللہ کا نام تو مسلمانوں نے اُجاگر کیا لیکن پھر خود ہی جوابِ شکوہ میں اس کا جواب دیتے ہوئے اس دور کے مسلمانوں کو آئنہ دکھایا کہ وہ تمہارے آباو اجداد تھے جنہوں نے اسلام کا پرچم بلند کیا لیکن تم کیا کر رہے ہو۔ اقبال کے شکوہ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ اقبال کہتے ہیں
ہم سے پہلے تھا عجب تیرے جہاں کا منظر
کہیں مسجود تھے پتھر کہیں معبود شجر
خُوگرِ پیکرِ محسوس تھی انساں کی نظر
مانتا پھر کوئی اَن دیکھے خدا کو کیونکر؟
اقبال مزید الله سے مخاطب ہو کر فرماتے ہیں
پر ترے نام پہ تلوار اُٹھائی کس نے؟
بات جو بگڑی ہوئی تھی وہ بنائی کس نے؟
ان سوالات کے بعد اقبال فخریہ انداز میں اس کا جواب کچھ یوں دیتے ہیں۔
تھے ہمیں ایک ترے معرکہ آراؤں میں
خُشکیوں میں کبھی لڑتے کبھی دریاؤں میں
دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں
کبھی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
اس طرح اقبال اللہ سے شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ اقبال کا شکوہ بہت طویل ہے جوکہ یہاں قلم بند کرنا ممکن نہیں پر یہاں پر اتنا شکوہ درج کرنے کی کوشش کی ہے میں نے کہ سمجھ آ جائے کہ اقبال نے کیا شکوہ کیا۔ اب بات کرتے ہیں کہ اقبال نے جوابِ شکوہ کس انداز میں اپنے الفاظ میں دیا۔ اقبال جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں۔
جن کو آتا نہیں دُنیا میں کوئی فن، تُم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تُم ہو
بِجلیاں جِس میں ہوں آسُودہ وہ خرمن، تُم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تُم ہو
علامہ اقبال مسلمانوں کو مزید آئنہ دکھاتے ہوئے فرماتے ہیں۔
صفحہء دہر سے باطل کو مٹایا کس نے؟
نوعِ انساں کو غلامی سے چُھڑایا کس نے؟
میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے؟
میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے؟
تھے تو آباء وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو؟
ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو!
کیا گیا؟ بہرِ مُسلماں ہے فقط وعدہء حُور
شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور!
عدل ہے فاطرِ ھستی کا اَزل سے دستور
مُسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حُور و قصور
اسی کے دوران علامہ اقبال نے مسلمانوں کی بہت سی خامیوں کو واضع کیا جس میں فرقہ واریت نمایاں ہے اور بہت سے سوالات بھی اُٹھائے۔
منفعت ایک ہے اِس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کا نبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قُرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مُسلمان بھی ایک؟
فرقہ بندی ہے کہیں، اور کہیں ذاتیں ہیں !
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
کون ہے تارک آئینِ رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عملی کا معیار؟
کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار؟
ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار؟
علامہ اقبال نے ہمیشہ نوجوانوں کو اسلاف کی میراث کو لے کے چلنے کی تلقین کی ہے۔ علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ نے بارہا فرمایا کہ مسلمان اپنے اسلاف کی میراث کھو چکے ہیں اور اِن کے آباء کی کتابیں یورپ میں پڑی نظر آتی ہیں جس سے استفادہ حاصل کر کے وہ ترقی کر رہے ہیں۔ علامہ اقبال رحمت اللہ علیہ فرماتے ہیں۔
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبّر بھی کِیا تُو نے
وہ کیا گردُوں تھا تُو جس کا ہے اک ٹُوٹا ہوا تارا
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوشِ محبّت میں
کُچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاجِ سرِ دارا
ایک اور جگہ علامہ اقبال فرماتے ہیں ؛
گنوا دی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی
ثُریّا سے زمیں پر آسماں نے ہم کو دے مارا
علامہ محمد اقبال رحمت اللہ علیہ مفکرِ پاکستان جنہوں نے پاکستان کا خواب دیکھا اور اُسے پورا کرنے کے لیے اُنہوں نے بہت سی کوششیں کیں۔ علامہ اقبال رحمت الله علیہ کی شاعری میں بہت سے رنگ ملتے ہیں جن میں سے کچھ پر تو میں نے اوپر نظر دوڑائی ہے لیکن علامہ اقبال کی شخصیت کو چند الفاظ میں قلم بند نہیں کیا جا سکتا۔