Waldain Ki Khwahish
والدین کی خواہش
ہمارے یہاں برِّصغیر میں بالعموم مشترکہ خاندانی نظام کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔ والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اُن کی زندگی میں کم از کم، سارے بیٹے اور اُن کی اولادیں ایک ہی چھت تلے وقت گزاریں۔ لیکن فطرت کے مظاہر کسی کے بھی خواہش کرنے سے نہ کبھی رُکے ہیں، نہ ہی بدلے ہیں۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جس ماں نےتین، چار یا پانچ بیٹوں کو جنم دیا ہے۔
اُس کی خواہش جو بھی ہو، اُتنے ہی گھر بہرحال اُن سب بیٹوں نے بنانے اور بسانے ہیں ہی، چاہے پھر بیٹوں کی دوسرے شہروں میں ملازمت کا بہانہ بن جائے، بڑھتے بچّوں کی ضرورت کے مطابق جگہ کی تنگی ایک وجہ بن جائے یا پھر بیٹے اور بہو کے والدین سے تنازعات سبب بن جائیں، لیکن ہر ایک نے جلد یا بدیر والدین کو چھوڑ کے اپنے گھر کی بنیاد رکھنی ہی ہوتی ہے۔
اب ایسے میں زیادہ تر کیسز میں دیکھا یہ گیا ہے کہ ماں باپ بالعموم سب سے چھوٹے بیٹے کے ساتھ اُسی گھر میں اپنی آخری عمر گزارنا پسند کرتے ہیں، جہاں اُن کی پوری زندگی بسر ہوئی ہوتی ہے۔ اکثر بڑے بیٹوں کی سخت خواہش اور تمنّا کے باوجود والدین اپنا گھر مستقلاً چھوڑ کے جانے پہ آمادہ نہیں ہوتے۔ اب ایسے میں منظر نامہ کُچھ یوں بنتا ہے کہ والدین اپنے بڑے بیٹوں، پوتوں سے دوری کے سبب اُنہیں بہت زیادہ یاد کرتے ہیں۔
وہ جب جب آتے ہیں، اُنہیں خاص پروٹوکول دیا جاتا ہے، اُن کے گھر میں دو چار دن رہ آئیں تو بہو اور بیٹے کی خدمت گزاری کی شان میں رطب اللسّان ہوتے ہیں، چاہے اُس بہو نے علیحدہ ہونے سے پہلے گھر کو ہمہ وقت میدانِ جنگ بنائے رکھا ہو اور ساس امّی کو تگنی کا ناچ نچایا ہو، اور یہ چھوٹے والے میّاں بیوی، جو اپنے بچّے بھی اُن کی خدمت کے دوران پیدا کر کے، پال پوس رہے ہوتے ہیں۔
عموماً، ایک گھر میں رہنے کی بناء پر، والدین کے بُڑھاپے کے باعث یا مزاج کے چڑچڑے پن کے باعث یا کبھی اُس چھوٹی بہو اور بیٹے کی طبیعت یا مزاج کے اُتار چڑھاوء کے باعث، کسی نہ کسی بات پہ والدین ناراضگی یا دلآزاری محّسوس کرتے ہیں کہ دن رات کے ساتھ میں کسی بھی قسم کی اونچ نیچ متوقّع ہوتی ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سارے منظر نامے میں بڑے بیٹوں اور بیاہی بیٹیوں کا کردار کیا ہونا چاہیئے؟
سب سے پہلے تو بڑے بھائیوں کو اپنے اُس چھوٹے بھائی کیلئے، جس نے تھوڑی بہت کمی بیشی کے باوجود والدین کو سنبھال رکھّا ہوتا ہے، اُس کی ہمیشہ اس بات پہ حوصلہ افزائی کرنی چاہیئے کہ یہ آپ سب کی ذمہ داری تھی، جو وہ اکیلا نبھا رہا ہے۔ اگر والدین اُس کی کوئی شکایت لگائیں تو اُنہیں تسلّی سے سُننے کے بعد اُس کی طرف سے والدین کا دل صاف کرنے کی کوشش کریں۔
اُنہیں یہ احساس دلائیں کہ جس طرح اُن دونوں نے آپ کو سنبھالا ہوا ہے، ہمارا دل بہت خوش ہے، آپ بھی چھوٹی چھوٹی باتوں پہ دل میلا نہ کیا کریں۔ اُن کی کوئی حقیقی کمی بیشی ہو تو بڑے بن کے اُنہیں بھی احسن طریقے سے سمجھایا جا سکتا ہے۔ بیاہی بیٹیوں کو بھی والدین کی ایک کو چار سے ضرب دے کے، اُن کا دل مزید میلا کرنے سے احتراز برتنا چاہیئے۔
بلکہ ان سب کو ان چھوٹوں کی حوصلہ افزائی، ان سے شفقت اور ان کی کمی بیشی پہ انہیں انسان ہونے کا مارجن ضرور دینا چاہیئے۔ والدین سے الگ ہونے کا مطلب اُن سے قطع تعلّق نہ سمجھا جائے۔ کوشش کریں کہ اگر آپ باوسائل ہیں تو اپنے چھوٹے بھائی پہ والدین کے کھانے پینے کے علاوہ باقی کے اخراجات کم سے کم ڈالیں، اُن کی دوائی، اُن کے لباس اور دیگر لوازمات کا خیال رکھیں۔
ممکن ہو تو والدین کو ماہانہ اخراجات کی مد میں ایک مخصوص رقم ضرور دیا کیجئے۔ اس سے بھی جہاں والدین کے دل راضی ہوں گے وہیں والدین کے چھوٹے موٹے روز مرّہ کے اخراجات کا بوجھ بھی چھوٹے بیٹے پہ نہیں پڑے گا۔ اگر چھوٹا بھائی کم وسائل کا مالک ہے تو اُس سے ہر ممکن ہمدردانہ رویّہ رکھیں اور اگر وہ باوسائل ہے، تب بھی والدین کی ضروریات کی طرف سے ہاتھ جھاڑ کے، فارغ ہو کے مت بیٹھ جائیے۔
کہ وہ باوسائل ہے، تب بھی اُس کے ساتھ مسائل بھی یقیناً منسلک ہوں گے۔ تھوڑی سی اعلٰی ظرفی اور معمولی سی وسعتِ قلبی سے نہ صرف آپ کی دُنیاوی زندگی بہت سارے لڑائی، جھگڑوں اور جھمیلوں سے بچ سکتی ہے، بلکہ آپ اپنے نامہء اعمال میں بھی نیکیوں کا خاطر خواہ اضافہ کر سکتے ہیں۔