Quran Aur Hum
قُرآن اور ہم
میں نے ایک بار پہلے بھی لکھّا تھا کہ ہم سب یہ ضرور یقین رکھتے ہیں کہ شیکسپئیر کا کلام، اُس کی پوری معنویّت کے ساتھ، صرف وہ شخص سمجھ سکتا ہے، جسے انگریزی زُبان و بیان اور قواعد و اِنشاء، idioms، phrasal verbs وغیرہ پہ مکمّل عُبور حاصل ہو، لیکن ہم میں سے بہت سے لوگوں کاخیال ہے کہ قُرآنِ کریم کو ہر وہ شخص، جو اُردو ترجُمہ یا تفسیر دیکھ کے پڑھنے کی اہلیّت رکھتا ہے، نہ صرف سمجھ سکتا ہے بلکہ قرآنِ کریم سے معاملات میں رہنُمائی بھی لے سکتا ہے۔
تب بھی یہی لکھّا تھا کہ عربی دُنیا کی بلیغ ترین زُبانوں میں سے ایک ہے۔ عرب جو اِس قدر قادرُالکلام تھے کہ اپنی فصاحت و بلاغت کے سامنے باقی دُنیا کو عجمی یعنی گُونگا کہا کرتے تھے، وہ اپنی تمام تر فصاحت و بلاغت کے باوجود قرآنِ پاک کی ایک آیہء کریمہ کا نعمُ البدل نہیں لا سکے تھے۔ تو ہم عجمیّوں کیلئے کب مُمکن ہے کہ عربی زبان و ادب پہ عُبور حاصل کئے بغیر یا کسی ایسے اُستاد کے بغیر، جسے عربی زبان و ادب پہ عُبور حاصل ہو، ہم قرآنِ کریم کو کماحقُہُ سمجھ سکیں؟ ایک مثال سے سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔
قُرآنِ کریم میں دِل heart کیلئے دو الفاظ اِستعمال ہوئے ہیں۔ ایک ہے "قلب" اور دوسرا ہے "فُوآءد"۔ سورةُ القصص میں موسٰی علیہ السّلام کی والدہ کا اُن کو ٹوکری میں ڈال کے دریا میں پھینکنے کے واقعہ کا تذکرہ ہے، جب ایک ماں اپنے نومولود بیٹے کو محض ایک دِل میں پیدا ہونے والے خیال کے تحت دریا بُرد کر دے، اور بچّہ ہر گُزرتے لمحے اُس کی نظروں سے اوجھل ہوتا ہوا دِکھائی دے رہا ہو تو اُس ماں کی کیا کیفیّت ہو سکتی ہے؟ یہ صرف ایک ماں ہی سمجھ سکتی ہے۔
جس آئہ کریمہ میں جنابِ موسٰی علیہ السّلام کی والدہ کی دلی کیفیّت بیان ہوئی ہے، اُس کا ترجُمہ کُچھ یوں ہے۔ " موسٰی کی ماں کا دِل (فُوآءد) خالی ہو گیا اور نوبت یہاں تک آ گئی کہ وہ اپنا راز کھولنے پر تیّار ہو گئیں، اگر یہ نہ ہوتا کہ ہم اُن کے دِل (قلبھا) کو باندھ رکھتے، تاکہ وہ ایمان والوں میں سے رہیں " اِس آئہ کریمہ میں ابتداء میں دِل کیلئے لفظ فُواءد استعمال ہوا ہے اور آخر میں قلب، جبکہ اُردو میں دونوں کا ترجُمہ دِل اور انگریزی میں heart ہی ہو گا۔
لیکن عربی زُبان میں فُواءد کے لفظی معنی گوشت کے ایسے ٹُکڑے کے ہیں، جو آگ میں پڑا جل رہا ہو۔ عربی زُبان میں یہ لفظ مُحاورتاً دِل کی اُس کیفیّت کو کہتےہیں، جب کسی اِنسان کا دِل کسی خاص جذبے جیسے، خوشی، غم، تکلیف، اُداسی، ڈپریشن کے شدّید ترین حصار میں ہو اور ایک آگ میں پڑے ہوئے گوشت کے ٹُکڑے کی طرح، اُس جذبے کی شدّت سے جُھلس رہا ہو۔ اب خود سوچئیے کہ ایک ماں، جو اپنے نومولود بچّے کو از خود دریا بُرد کر دے، اُس کے دِل سے زیادہ جُھلسا ہوا گوشت کا ٹُکڑا روئے زمین پہ موجود ہو سکتا ہے؟
اُن کی کیفیّت کو صرف یہ ایک لفظ ہی مکمّل بلاغت کے ساتھ بیان کر رہا ہے، لیکن اِس بلاغت کی انتہاء کو صرف وہ لوگ ہی پا سکتے ہیں، جنہیں زبان و ادب پہ مکمّل عبور حاصل ہو گا۔ اِسی آیہء کریمہ میں آگے چل کے اُنہی کے دِل کیلئےلفظ "قلب" اِستعمال ہوا ہے۔ کیوں؟ اِس لئے کہ اُس وقت تک ربِّ کائنات نے اُن کے دِل کو سکینت عطا فرما دی تھی اور اُن کے جلتے دِل پہ اپنی رحمت کی ٹھنڈی پھُوار برسا کے، اُنہیں اطمینانِ قلب عطا فرما دیا تھا۔
اور وہ اپنے قلبی اضطراب کے تحت بے بسی کے عالم میں شور مچا کے، موسٰی علیہ السّلام کا راز افشاء کرنے سے باز آ گئیں۔ اور اُن کا دِل ایک جلتے ہوئے گوشت کے ٹکڑے سے ایک عام انسانی دِل میں بدل گیا۔ تو یہاں لفظ "قلب" اِستعمال ہوا ہے۔ کیا ہم میں سے کوئی بھی شخص، کوئی بھی ترجُمہ یا تفسیر پڑھ کے، اِس باریک نُکتے کو سمجھ سکتا ہے؟ یہ صرف ایک مثال ہے۔ آج کل اُستاد نُعمان علی خان کے لیکچرز سُن رہی ہوں اور یہ تحریر بھی اُنہی کے لیکچر سے ماخوذ ہے۔
یوٹیوب پہ "قُرآن اور ہم" کے نام سے اکّیس لیکچرز کی ایک سیریز ہے، جس میں قُرآنِ کریم کی زُبان، بیان، قُرآنی مُحاورات اور الفاظ میں مُضمر باریک نُکات پہ سیر حاصل گُفتگو کی گئی ہے۔ اِس تحریر سے یہ تاثُر ہرگِز نہ لیا جائے کہ میں قُرآنِ کریم کا ترجُمہ اور تفسیر ازخود پڑھنے کے خلاف ہوں۔ ہرگِز نہیں۔ میں خود بھی آج کل ترجُمہ اور تفسیر پڑھنے کی کوشش کر رہی ہوں۔
مُراد صرف یہ ہے کہ قُرآن کو سمجھنے کے شوقین افراد اوّلاً تو عربی سیکھنے کی کوشش کریں یا پھر اُن عُلمائے کرام کی زیرِ نگرانی یا اُن کی رہنُمائی میں قُرآن کاپیغام سمجھنے کی کوشش کریں، جو قُرآن پڑھنے اور سمجھنے میں زندگیاں صرف کر دیتے ہیں۔ وماعلینا اِلّا البلٰغ۔